شام میں باغی گروپوں کے مابین تازہ جھڑپیں
14 جولائی 2013شام کے سب سے بڑے شہر حلب میں فری سیریئن آرمی کے حامی باغی گروپوں اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے عراقی جنگجوؤں کے مابین ان جھڑپوں سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ شام میں گزشتہ دو برسوں کی شورش کے باوجود بھی باغی گروہ متحد نہیں ہو سکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ حریف باغی گروہوں کے مابین اس لڑائی نے صدر اسد کے خلاف جاری جنگ میں اپوزیشن کے سیکولر گروہوں اور اسلام پسند انتہا پسندوں کے مابین خلیج کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔
مقامی باشندوں اور شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ باغیوں کے ان دونوں حریف گروپوں کے مابین یہ تازہ تصادم ہفتے کے روز شروع ہوا۔
ان میں سے ایک گروپ اپوزیشن کے ان جنگجوؤں کا ہے، جنہیں مغربی ملکوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا گروپ القاعدہ سے قربت رکھنے والے ان فائٹرز کا ہے، جو خود کو اسلامک اسٹیٹ آف عراق سے آنے والے جنگجو قرار دیتے ہیں۔ تصادم کی وجہ حلب شہر کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے اور شامی دستوں کے زیر کنٹرول حصے کے درمیان القصر کے مقام پر قائم عسکری حوالے سے انتہائی اہم چیک پوائنٹ کا کنٹرول بنا۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا ہے کہ ہفتے کی صبح شروع ہونے والی یہ جھڑپیں، دوپہر کو اس وقت ختم ہوئیں جب القاعدہ سے وابستہ جنگجو پیچھے ہٹ گئے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس وقت اس اہم چیک پوائنٹ کا کنٹرول کس کے پاس ہے۔ اسی دوران باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین بھی لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
حالیہ ہفتوں کے دوران شام میں اعتدال پسند باغی گروہوں اور ’جہادیوں‘ کے مابین جھڑپوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپوزیشن ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتے کی صبح ادلب کے شمال میں واقع راس الحسن نامی علاقے میں فری سیریئن آرمی اور اسلامک اسٹیٹ آف عراق کے جنگجوؤں کے مابین اس وقت لڑائی شروع ہو گئی، جب القاعدہ سے وابستہ انتہا پسندوں نے اسلحے کے گوداموں پر حملہ کرتے ہوئے انہیں اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کی۔
اسی طرح کے ایک واقعے میں جمعرات کے دن جہادی گروہوں نے فری سیریئن آرمی کے کمانڈر کمال حمامی کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد ان دونوں باغی گروہوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آبزرویٹری کے مطابق گزشتہ ہفتے بھی اعتدال پسند باغیوں اور ’جہادیوں‘ کے مابین ہونے والی لڑائی کے نتیجے میں فری سیریئن آرمی کے درجنوں فائٹر مارے گئے تھے۔
یہ امر اہم ہے کہ جب دو برس قبل شامی صدر بشار الاسد کے خلاف مزاحمت شروع ہوئی تھی تو شامی اپوزیشن گروہوں نے جہاد پسند جنگجوؤں کو شام میں خوش آمدید کہا تھا۔ شام کے اعتدال پسند باغیوں کا الزام ہے کہ بیرون ممالک سے شام آنے والے جہادی وہاں سخت اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتے ہیں۔