شام ميں ہلاک شدگان کی تعداد ستر ہزار ہو سکتی ہے، ناوی پلے
13 فروری 2013ناوی پلے نے يہ بات گزشتہ روز سلامتی کونسل ميں مسلح تنازعات کے نتيجے ميں منعقد کی گئی سويلين ہلاکتوں کے موضوع پر ہونے والی ايک بحث کے دوران کی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے شامی بحران کے حل کے لیے ناکافی کوششوں کہ وجہ سے شامی عوام مشکلات کا شکار ہیں۔
ناوی پلے نے کہا، ''شام کے معاملے پر عدم اتفاقی اور اس کے نتيجے ميں ناکافی اقدامات کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہيں، جس کا خميازہ شہريوں کو بھگتنا پڑا ہے۔'' واضح رہے کہ رواں سال کے آغاز پر ناوی پلے نے کہا تھا کہ شام میں ہلاکتوں کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور اب اس تعداد ميں قريب دس ہزار کے اضافے کا امکان ہے۔
اس موقع پر ناوی پلے نے اپنے مطالبے کو دہرایا ہے کہ شام میں جاری ظلم و جبر کی آزادانہ تحقیقات کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کیا جائے تاکہ دونوں فريقين کو يہ پيغام ديا جا سکے کہ ان کے اعمال کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔ شامی حکومت اور باغیوں دونوں پر ہی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ظلم و جبر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اس موضوع پر سلامتی کونسل سے اپنے خطاب کے دوران اقوام متحدہ ميں شام کے سفير بشار جعفری نے اپنے اس الزام کو دہرايا کہ سعودی عرب، امريکا، قطر اور ترکی سميت ديگر مغربی ممالک شامی باغيوں کی معاونت کر رہے ہيں۔ انہوں نے کہا، ''شامی بحران کی تخليق، اس کے بڑھاؤ چڑھاؤ اور پھيلاؤ ميں ان ممالک کی حکومتيں ملوث ہيں، چاہے وہ شامی عوام کے خلاف يکطرفہ پابنديوں کے عائد کيے جانے کے ذريعے ہو يا چاہے شام ميں دہشت گردوں اور عسکريت پسندوں کو آمد کی اجازت دينے کے ذريعے۔''
اس سے قبل رواں ہفتے کے آغاز پر اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون يہ کہہ چکے ہيں کہ شامی تنازعے کو دنوں اور گھنٹوں کے تناظر ميں نہيں بلکہ اس تناظر ميں ديکھا جاتا ہے کہ ہر دن وہاں کتنے افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے يہ بات پير کے روز سلامتی کونسل ميں خارجہ تعلقات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہی۔ مون کے بقول اس شورش زدہ ملک ميں فرقہ وارانہ نفرتيں اور لڑائی روز بروز بڑھ رہی ہے اور سلامتی کونسل کو اپنی خاموشی ترک کرتے ہوئے اس خونريزی کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
عالمی طاقتيں اس بارے ميں متفق نہيں ہيں کہ آيا شام کے معاملے ميں ہيگ ميں قائم انٹرنيشنل کرمنل کورٹ سے رجوع کيا جائے۔ گزشتہ مہينے پچاس سے زائد ممالک نے يہ مطالبہ کيا تھا کہ اس سلسلے ميں بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کيا جائے۔
يورپی يونين، امريکا اور عرب ليگ شام کے خلاف متعدد پابندياں عائد کر چکے ہيں تاہم سلامتی کونسل کے مستقل ارکان روس اور چين اب تک بشار الاسد انتظاميہ کے خلاف سخت تر رد عمل کی راہ ميں رکاوٹ ثابت ہوئے ہيں۔
as/ab (Reuters)