شارڈ: یورپ کی بلند ترین عمارت کا افتتاح
6 جولائی 2012جمعرات کی شام لندن کے ہزارہا شہری دریائے ٹیمز کے کنارے اور شہر کے دیگر مختلف مقامات سے اس عمارت کی افتتاحی تقریب کا نظارہ کر رہے تھے، جس کے دوران لندن فلہارمونک آرکسٹرا کی بجائی ہوئی دلکش دھنوں کے پس منظر میں بارہ لیزر اور تیس سرچ لائٹس شارڈ ٹاور کو روشنی میں نہلا رہی تھیں۔
اس سے پہلے خلیجی عرب ریاست قطر کے وزیر اعظم حماد بن جاسم الثانی اور ملکہ الزبتھ کے بیٹے پرنس اینڈریو نے باقاعدہ طور پر اس عمارت کا افتتاح کیا۔ شدید بحث مباحثے کا موضوع بننے والی اس متنازعہ عمارت کی مکمل تکمیل تک اس پر 450 ملین پاؤنڈ لاگت آئے گی، جس کا 95 فیصد قطر نے ہی فراہم کیا ہے۔
اس موقع پر پرنس اینڈریو نے امید ظاہر کی کہ یہ عمارت اپنے آس پاس کے مقامات کے لیے ترقی اور خوشحالی کا باعث ثابت ہو گی۔ لندن کے میئر بورس جانسن نے شارڈ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے کہا کہ یہ عمارت ’طرزِ تعمیر کا ایک حیران کن شاہکار‘ ہے۔
شارڈ ٹاور لندن برج کے قریب دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اور ابھی اس کا محض بیرونی ڈھانچہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ اس کے اندرونی ڈھانچے کی تعمیر ابھی 2013ء تک جاری رہے گی۔
دنیا کی بلند ترین عمارت بدستور دبئی کا برج الخلیفہ ہے، جس کی بلندی 828 میٹر ہے۔ اب تک یورپ کی بلند ترین عمارت کا اعزاز روسی دارالحکومت کے کیپیٹل سٹی ماسکو ٹاور کے پاس تھا۔ شارڈ کو اُس کا یہ نام اس عمارت کا ڈیزائن تخلیق کرنے و الے اطالوی ماہر تعمیرات رینزو پیانو کا دیا ہوا ہے۔
پچانوے منزلہ شارڈ کے بیرونی ڈھانچے پر فٹ بال کے آٹھ میدانوں کے برابر شیشہ لگایا گیا ہے جبکہ اس میں اتنا زیادہ کنکریٹ استعمال ہوا ہے کہ اُس سے اولمپک سائز کے بائیس سوئمنگ پولز کو بھرا جا سکتا ہے۔
اس عمارت میں بارہ ہزار افراد کی گنجائش ہو گی۔ اس میں ایک فائیو سٹار ہوٹل کے علاوہ چھ لاکھ مربع میٹر گنجائش کے حامل دفاتر، لگژری ریستوراں اور دکانیں بھی ہوں گی۔
یورپ کی اس بلند ترین عمارت میں دَس رہائشی اپارٹمنٹس بھی ہوں گے، جن میں سے ہر ایک کی قیمت مبینہ طور پر پچاس ملین پاؤنڈ ( 78 ملین ڈالر، 62 ملین یورو) ہو گی۔ شارڈ کی 53 ویں سے لے کر 65 ویں منزل پر واقع یہ اپارٹمنٹس برطانیہ کے بلند ترین رہائشی اپارٹمنٹس ہوں گے۔
شارڈ تعمیر کرنے والی کمپنی Sellar پراپرٹی کی سربراہ اِروِن سیلر نے کہا کہ اس عمارت میں سیاحوں کے لیے مختص کیے گئے مقامات سے لندن کے کونے کونے کا نظارہ کیا جا سکے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ جیسے لوگ نیویارک کی ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چھت پر جایا کرتے تھے، ویسے ہی لندن پہنچ کر لازمی طور پر شارڈ کی سیر کیا کریں گے۔
سیاحوں کے لیے اس عمارت کے دروازے آئندہ برس فروری میں کھولے جائیں گے ا ور انٹرنیٹ پر ابھی سے سترہ ہزار پانچ سو افراد اپنی آن لائن رجسٹریشن کروا بھی چکے ہیں۔
ناقدین کا اعتراض ہے کہ یہ عمارت نہ صرف لندن کی سکائی لائن کو متاثر کرے گی اور عالمی ورثے میں شمار ہونے والے کچھ مقامات کو نظروں سے اوجھل کر دے گی بلکہ یہ تکبر اور غرور کی بھی علامت ہو گی۔ ایک مبصر نے تو شہر کے منظر نامے پر اس عمارت کے اثرات کا موازنہ مالی میں قدیم مقبروں کی حالیہ تباہی سے کیا ہے۔
aa/aba/afp