باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف’ٹارگٹڈ آپریشن‘ جاری
وقت اشاعت 12 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 12 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- سکیورٹی فورسز کا باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف’ٹارگٹڈ آپریشن‘
- سوڈان میں نیم فوجی ملیشیا کے حملے میں کم از کم چالیس افراد ہلاک
- پاکستان کا امریکہ کی جانب سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیے جانے کا خیر مقدم
- غزہ شہر پر اسرائیلی حملوں میں کم ازکم گیارہ فلسطینی ہلاک
- ناروے کا مزید اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ نکال لینے کا امکان
- بلوچستان: افغان سرحد پر 50 عسکریت پسند ہلاک، پاکستانی فوج
سکیورٹی فورسز کا باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف’ٹارگٹڈ آپریشن‘
پاکستانی سکیورٹی فورسز نے صوبے خیبر پختونخوا میں افغانستان کے ساتھ سرحد سے متصل ضلع باجوڑ میں عسکریت پسندوں کے خلاف ’’ٹارگٹڈ آپریشن‘‘شروع کر دیا ہے۔ حکام کے مطابق اس آپریشن کے باعث ہزاروں مقامی باشندے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر گئے ہیں۔
اگرچہ اس کارروائی کے آغاز کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا لیکن ایک سرکاری افسر سعید اللہ کے مطابق یہ کوئی بڑے پیمانے کی فوجی کارروائی نہیں بلکہ صرف شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ شہری جانی نقصان سے بچا جا سکے۔
ایک اور سرکاری افسر شاہد علی نے بتایا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ کر تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ مقامی باشندوں کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے سرحدی پہاڑی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ صوبائی پولیس چیف ذوالفقار حمید نے کہا کہ آپریشن جاری ہے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ایک الگ تنظیم ہے لیکن افغان طالبان کی قریبی حلیف سمجھی جاتی ہے، جنہوں نے اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا۔ اس کے بعد متعدد ٹی ٹی پی رہنما اور جنگجو افغانستان میں پناہ گزین ہو گئے تھے اور انہوں نے وہاں سے باجوڑ میں داخل ہو کر حملے بھی کیے۔
باجوڑ میں 2009 میں بھی پاکستانی اور غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف ایک بڑا فوجی آپریشن کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تھے۔
سوڈان میں نیم فوجی ملیشیا کے حملے میں کم از کم چالیس افراد ہلاک
افریقی ملک سوڈان میں نیم فوجی دستوں پر مشتمل ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) نے شمالی دارفور کے صوبائی دارالحکومت الفاشر کے باہر قحط زدہ اور بے گھر افراد کے ابو شوق نامی کیمپ پر حملہ کر کے 40 افراد کو ہلاک کر دیا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم مقامی گروپوں نے کہا کہ یہ حملہ پیر کے روز کیا گیا۔ ایمرجنسی ریسپانس رومز نامی گروپ، جو سوڈان بھر میں امدادی کام کرتا ہے، نے فیس بک پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ آر ایس ایف، جو سوڈانی فوج کے خلاف برسرپیکار ہے، کے مسلح ارکان نے اس کیمپ کے بعض حصوں پر چھاپہ مارا اور عارضی قیام گاہوں میں موجود شہریوں کو نشانہ بنایا۔ اس گروپ کے مطابق کم از کم 19 افراد زخمی بھی ہوئے۔
تقریباً چار لاکھ 50 ہزار بے گھر افراد کو پناہ دینے والا ابو شوق کیمپ جنگ کے دوران بارہا حملوں کا نشانہ بن چکا ہے۔ الفاشر شہر پر فوج کا کنٹرول ہے لیکن آر ایس ایف وقفے وقفے سے وہاں حملے کرتی رہی ہے۔
ادھر الفاشر کی مزاحمتی کمیٹیوں نے بھی ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے فیس بک پر کہا کہ یہ منظرنامہ ’’بے گناہ اور نہتے عوام کے خلاف کیے جانے والے ہولناک مظالم کی عکاسی کرتا ہے۔‘‘ یہ کمیٹیاں مقامی شہریوں پر مشتمل ہیں، جن میں انسانی حقوق کے کارکن بھی شامل ہیں۔
ییل یونیورسٹی کی ہیومینیٹیرین ریسرچ لیب نے سیٹلائٹ تصاویر جاری کی ہیں، جن میں پیر کے روز ابو شوق کیمپ میں 40 گاڑیوں کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے۔
پاکستان کا امریکہ کی جانب سے بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دیے جانے کا خیر مقدم
پاکستانی وزارت خارجہ نے آج بروز منگل امریکہ کے اس اقدام کا ’’خیر مقدم‘‘ کیا، جس کے تحت علیحدگی پسند بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور اس کے مسلح ونگ مجید بریگیڈ کو امریکہ کی تیار کردہ غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں (ایف ٹی اوز) کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سردار سر فراز بگٹی نے کہا کہ یہ گروہ ’’نسل اور حقوق کے جھوٹے لبادے میں طویل عرصے سے بے گناہوں کا خون بہاتے رہے ہیں۔‘‘ امریکہ کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر امریکہ کے دورے پر ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے آج بروز منگل ایک بیان میں کہا کہ بی ایل اے اور اس کے عرفی نام ’’مجید بریگیڈ‘‘ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (FTO) قرار دیا جا رہا ہے، اور مجید بریگیڈ کو بی ایل اے کے اس عرفی نام کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے جسے پہلے ہی ’’خصوصی عالمی دہشت گرد‘‘ (SDGT) کے طور پر درج کیا گیا تھا۔
بی ایل اے کو 2019 میں امریکی محکمہ خزانہ نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا تاہم محکمہ خارجہ کے مطابق اس کے بعد بھی اس گروپ نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں 2024 میں کراچی ایئر پورٹ کے قریب اور گوادر میں خودکش حملے بھی شامل ہیں۔
اس سال مارچ میں بی ایل اے نے جعفر ایکسپریس نامی ایک مسافر ٹرین ہائی جیک کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا، جس میں 31 شہری اور سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے جبکہ 300 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی بیان کے مطابق یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کے دہشت گردی کے خلاف عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی تجزیہ کار سید محمد علی نے کہا کہ یہ پیش رفت فیلڈ مارشل عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے تناظر میں سامنے آئی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن خطے میں پاکستان کے سکیورٹی خدشات سے متفق ہے، اور خاص طور پر تیل اور گیس سے مالا مال بلوچستان میں استحکام کو اہمیت دیتا ہے۔
بلوچستان طویل عرصے سے شورش زدہ ہے جہاں بی ایل اے سمیت کئی مسلح گروہوں پر ریاستی اور غیر ملکی منصوبوں کو نشانہ بنانے کے الزامات ہیں۔ گزشتہ ہفتے ملکی فوج نے ژوب میں کارروائیوں کے دوران 47 جبکہ منگل کو مزید تین عسکریت پسند مار دینے کا دعویٰ کیا، جس سے پانچ روز میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد 50 ہوگئی ہے۔
اسی روز صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں ایک اسلحہ ڈپو میں بھی دھماکہ ہوا تھا۔ مقامی رہائشی باشندوں کے مطابق اس بارے میں حکام کی جانب سے تاحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔
غزہ شہر پر اسرائیلی حملوں میں کم ازکم گیارہ فلسطینی ہلاک
اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں کی غزہ شہر کے مشرقی علاقوں پر رات بھر جاری رہنے والی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد مارے گئے۔ عینی شاہدین اور طبی عملے کے مطابقیہ ہلاکتیں الزیتون کے علاقے میں دو گھروں اور شہر کے وسط میں ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ پر حملوں کے نتیجے میں ہوئیں۔ اسی دوران حماس کے رہنما خلیل الحیہ قاہرہ پہنچے ہیں، جہاں امریکہ کے حمایت یافتہ جنگ بندی منصوبے کی بحالی پر بات چیت ہونا ہے۔
قطر میں ہونے والے حالیہ بالواسطہ مذاکرات جولائی کے آخر میں بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوئے تھے، جس میں 60 روزہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے امریکی منصوبے پر تعطل کا اسرائیل اور حماس نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔
اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ شہر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اکتوبر میں نئی کارروائی شروع کرے گا۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا منصوبہ غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور بھوک کے بحران پر عالمی سطح پر شدید تنقید کا باعث بنا ہے جبکہ اسرائیلی فوجی قیادت نے خبردار کیا ہے کہ اس سے یرغمالیوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے اور ملکی فوج کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
دریں اثنا جنوبی غزہ پٹی کے شہر خان یونس میں پیر اور منگل کی درمیانی شب ایک فضائی حملے میں ایک شادی شدہ جوڑا اور اس کے بچے سمیت پانچ افراد مارے گئے، جبکہ ساحلی علاقے المواصی میں ایک خیمہ بستی پر حملے میں مزید چار افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ ان واقعات کی تفصیلات کا جائزہ لے رہی ہے اور شہریوں کو جانی نقصان سے بچانے کی اپنی طرف سے پوری کوشش کرتی ہے۔ فوج کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں شمالی غزہ میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے اور مزید کئی سرنگیں تباہ کر دی گئیں۔
غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بھوک اور غذائی قلت سے مزید پانچ افراد، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں، ہلاک ہو گئے، جس سے اکتوبر 2023 میں جنگ کے آغاز سے اب تک اس وجہ سے مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 227 ہو گئی ہے۔ ان میں سے 103 بچے تھے۔ اسرائیل ان اعداد و شمار کو مسترد کرتا ہے۔
غزہ کی جنگ سات اکتوبر 2023 کو اس وقت شروع ہوئی تھی، جب حماس کے عسکریت پسندوں نے سرحد پار اسرائیل میں حملہ کر کے 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں اور غزہ پٹی کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔
فلسطینی اور عرب سفارتی ذرائع کے مطابق حماس مذاکرات کی میز پر واپس آنے کو تیار ہے، لیکن اسرائیل کے فوجی انخلا اور حماس کے ہتھیار ڈالنے جیسے اہم معاملات پر جنگی فریقین کے مابین اختلافات بدستور موجود ہیں۔ مصر اور قطر کے ثالثوں کا کہنا ہے کہ وہ مذاکرات کی بحالی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ اسرائیل کا نیا فوجی منصوبہ حماس کو دباؤ میں لانے کا ایک ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔
ناروے کا مزید اسرائیلی کمپنیوں سے سرمایہ نکال لینے کا امکان
ناروے کے دو ٹریلین ڈالر مالیت کے خود مختار ویلتھ فنڈ کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ غزہ پٹی اور مقبوضہ مغربی کنارے کی صورتحال کے پیش نظر اس کی طرف سے اسرائیلی کمپنیوں میں اپنی سرمایہ کاری کے جاری جائزے کے تحت مزید کمپنیوں سے سرمایہ نکال لیے جانے کا امکان ہے۔
اس فنڈ نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے اسرائیلی سرمایہ کاری کا انتظام کرنے والے بعض بیرونی اثاثوں کے منتظمین سے معاہدے ختم کر دیے ہیں اور غزہ پٹی میں بگڑتے انسانی بحران کے باعث ملک میں اپنے پورٹ فولیو کا کچھ حصہ بیچ دیا ہے۔
یہ جائزہ گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا تھا، جب میڈیا رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ اس فنڈ نے اسرائیلی جیٹ انجن کمپنی بیٹ شیمیش انجنز لمیٹڈ (BSEL) میں دو فیصد سے کچھ زائد حصص خرید لیے ہیں، جو اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کی مرمت سمیت دیگر خدمات فراہم کرتی ہے۔ ناروے کے اس فنڈ نے منگل کو اعلان کیا کہ اس نے یہ حصص فروخت کر دیے ہیں۔
ناروے کے مرکزی بینک کے ماتحت نورگیز بینک انویسٹمنٹ مینجمنٹ (NBIM) کے سی ای او نکولائی ٹانگن نے بتایا کہ 30 جون تک اس فنڈ کے پاس 61 اسرائیلی کمپنیوں میں حصص تھے اور حالیہ دنوں میں 11 کمپنیوں سے سرمایہ نکالا گیا ہے، جن میں BSEL بھی شامل ہے۔
ٹانگن نے اعتراف کیا کہ BSEL کو مئی میں ’’ہائی رسک‘‘ قرار دیا گیا، لیکن یہ فیصلہ جلد ہونا چاہیے تھا اور اسرائیلی سرمایہ کاری پر کنٹرول پہلے سے سخت ہونا چاہیے تھا۔ ان کے بقول، ’’ہمیں اسرائیلی سرمایہ کاری پر جلد قابو پانا چاہیے تھا۔‘‘
یہ فنڈ، جو ناروے کی تیل اور گیس سے آمدنی کو سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتا ہے، دنیا کے سب سے بڑے خود مختار سرمایہ کار فنڈز میں سے ایک ہے اور اوسطاً دنیا بھر کی تمام لسٹڈ کمپنیوں کے 1.5 فیصد حصص کا مالک ہے۔
منگل کے روز اس فنڈ نے سال کی پہلی ششماہی میں 698 بلین نارویجین کرونے (68.28 بلین ڈالر) کا منافع ظاہر کیا، جو 5.7 فیصد شرح منافع کے ساتھ اس کے بینچ مارک انڈکس کے مطابق ہے، اور یہ کارکردگی خاص طور پر مالیاتی شعبے میں اچھے نتائج کے باعث ممکن ہوئی۔
بلوچستان: افغان سرحد پر 50 عسکریت پسند ہلاک، پاکستانی فوج
پاکستانی فوج نے آج 12 اگست بروز منگل کہا کہ اس نے افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب صوبے بلوچستان کے شورش زدہ علاقے میں چار روزہ آپریشن کے دوران 50 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا ہے۔ یہ خطہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں کا اہم مرکز ہے جہاں اسلام پسند عسکریت پسند اور بلوچ علیحدگی پسند عناصر صوبے کے معدنی وسائل میں بڑے حصے کے مطالبات کے ساتھ سرگرم ہیں۔
پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان کے مطابق یہ آپریشن جمعرات کو شروع کیا گیا تھا۔ خبر رساں ادارہ روئٹرز ان ہلاکتوں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔
آزاد تجزیہ کاروں اور عسکریت پسند گروپوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج اکثر ہلاکتوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، تاہم فوج اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر