سکھ حکمران اور ان کے عہد کی جیتی جاگتی تصویریں
لاہور کے شاہی قلعے میں واقع مائی جنداں کی حویلی سکھ دور کی تاریخ اور ثقافت کی ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کرتی ہے۔ حویلی کی بالائی منزل پر مختلف پینٹنگز اور مجسموں کے ذریعے سکھ حکمرانوں اور ان کے عہد کی منظر کشی کی گئی ہے.
گچ کا مجسمہ
بیرن مردچٹی کا بنایا ہوا مہاراجہ دلیپ سنگھ کا مجسمہ جس میں انہیں اٹھارہ سالہ نوجوان دکھایا گیا ہے۔ 29 انچ اونچا یہ مجسمہ ممکنہ طور پر 1854 اور 1857 کے درمیان کسی وقت تیار کیا گیا۔
دلیپ سنگھ
اگست تھیوڈور شوئفے نے 1870 کے قریب یہ آئل پینٹنگ تیار کی جس میں دلیپ سنگھ کا بچپن دکھایا گیا ہے۔ شوئفے کے فن پاروں کا سب سے بڑا مجموعہ اِسی آرٹ گیلری میں ہے۔ مہاراجہ دلیپ سنگھ نے ان سے گیارہ پینٹنگز خریدی تھیں جو سب کی سب یہاں محفوظ ہیں۔
کولکتہ کی بندرگاہ کا ایک منظر
اگست تھیوڈور شوئفے پنجاب کے علاؤہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں گئے اور دربار کے علاؤہ مقامی کلچر کا بھی مشاہدہ کیا۔ یہ پینٹنگ کولکتہ کی ایک بندرگاہ کا منظر ہے۔ پانی میں بادبانی کشتیاں، ساحل پر مال مویشیوں سمیت لوگوں کا ہجوم جو لکڑی کے تختوں پر بیٹھے ہیں۔ ساتھ میں ایک حجام اپنے کام میں مصروف ہے۔
رانی جنداں
لکڑی کے گول تخت پر رکھے ایک سرخ اور سبز مخملی کشن پر نیم دراز یہ خاتون رانی جنداں ہیں جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی بیوی اور مہاراجہ دلیپ سنگھ کی والدہ تھیں۔ نامکمل پس منظر والی اس پینٹنگ کے مصور کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔ بمبا انہی کی بیٹی تھیں جن کا کلیکشن شاہی قلعے کے اِس میوزیم کی بنیاد بنا۔
مہاراجہ شیر سنگھ کی مجلس مشاورت
یہ آئل پینٹنگ اگست تھیوڈور شوئفے نے تیار کی اور آج جس قلعے میں یہ نمائش کے لیے موجود ہے، اسی کا ایک منظر ہے۔ مجلس مشاورت جاری ہے، مہاراجہ شیر سنگھ ایک سرخ تکیے کے سہارے نیم دراز ہیں، ان کے بائیں ہاتھ بیٹھے وزیرِ خاص راجہ دھیان سنگھ شاید اہم امور پر بریفنگ دے رہے ہیں، جبکہ سامنے درباری دو قطاروں میں بیٹھے ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ بڑھاپے میں
یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مشہور ترین آئل پینٹنگز میں سے ایک کی نقل ہے جو گردوارہ پربندھک کمیٹی امرتسر کی جانب سے تحفے میں دی گئی۔ یہ اپنی اوریجنل حالت میں پہلی بار 1858 میں سامنے آئی جس کے تخلیق کار کا نام وقت کی دھول میں گم ہو چکا۔
رنجیت سنگھ ہاتھی پر سوار
یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے شاہی جلوس کا ایک شاندار ماڈل ہے جسے خالص چاندی سے تیار کیا گیا۔ رنجیت سنگھ ہاتھی پر سوار ہیں، ان کے اردگرد درباری، سپاہی اور موسیقار موجود ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے مشابہ مگر چھوٹا اور زیادہ نفاست سے بنایا گیا چاندی کا ایک اور ماڈل لندن کے وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم میں بھی موجود ہے۔
تلواریں
جب انگریزوں نے 1846 میں شاہی قلعے پر قبضہ کیا تو انہوں سکھوں کے زیر استعمال رہنے والے ہتھیاروں کی کافی تعداد ملی۔ انہیں میں یہ مختلف سائز کی تلواریں بھی شامل ہیں۔ ان میں سے بعض اٹھارویں صدی جبکہ اکثر انیسویں صدی کی یادگار ہیں۔ ان کے دستے لکڑی کے ہیں جن میں سے بعض پر تھوڑی بہت چاندی بھی لگی ہے۔
بندوقیں
1848 اور 1849 کے دوران سکھوں اور انگریزوں کے درمیان دوسری جنگ ہوئی جس میں یہ بندوقیں استعمال کی گئی تھیں۔ یہ انیسویں صدی کا طاقتور اسلحہ تصور کیا جاتا ہے جو انگریز سپاہیوں کے پاس کافی تعداد میں موجود تھا۔
ڈھول
جنگ و جدل ہو یا مختلف ثقافتی میلے، ڈھول پنجاب کی پہچان رہا ہے۔ یہ انیسویں صدی کے مختلف ڈھول ہیں جو شہزادی بمبا کلیکشن کا حصہ ہیں اور دیگر جنگی ہتھیاروں کے پہلو میں رکھے گئے ہیں۔