سویڈن: دارالحکومت میں مظاہروں کی چوتھی رات
23 مئی 2013hrwhkسویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں مظاہروں سے عبارت چوتھی رات کے دوران موٹر گاڑیوں کے نذر آتش کرنے کے علاوہ پولیس پارٹی پر حملوں کا بھی بتایا گیا ہے۔ شبینہ مظاہرے شہر کے شمال سے جنوب تک پھیل گئے ہیں۔ بدھ کی شام سے نوجوانوں کی ٹولیاں اسٹاک ہوم کے نواحی علاقوں میں موٹر گاڑیوں کو آگ لگانے کے علاوہ گھروں اور دفاتر کے شیشوں کو توڑنے کی کوششوں میں رہے۔ پولیس کے مطابق سویڈن کے جنوبی شہر مالمو میں بھی مظاہرین نے دو موٹر گاڑیوں کو آگ لگائی۔
مقامی میڈیا کے مطابق دارالحکومت کے جنوبی نواحی علاقے میں راگزوید میں مظاہرین نےمقامی پولیس اسٹیشن کے ایک حصے کو بھی نذر آتش کر دیا۔ اسی تھانے میں پولیس نے کئی مظاہرین کو پابند کر کے رکھا ہوا تھا۔ پولیس اسٹیشن کو لگائی گئی آگ پر فوری طور پر قابو پالیا گیا اور اسی باعث کوئی بھی شخص زخمی یا جھلسنے سے محفوظ رہا۔ مظاہرین رات کے منتظر ہوتے ہیں اور رات ہوتے ہی وہ اپنی پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پولیس پارٹیوں کو دیکھ کر وہ مختلف گلیوں میں تِتر بِتر ہو جاتے ہیں۔
مقامی سکیورٹی حکام نے مظاہرین کو پرامن رہنے کی بار بار تلقین کی ہے۔ ایسی ہی اپیل وزیراعظم فریڈرش رائنفیلٹ کی جانب سے بھی کی گئی ہے۔ مظاہروں سے بھری ان چار راتوں کے دوران بے شمار دکانوں، شاپنگ اسٹورز، اسکولوں اور ایک تھانے کے علاوہ ایک آرٹس اور کرافٹ کے اسٹور کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ کم از کم تیس موٹر گاڑیوں کو آگ لگانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسٹاک ہوم پولیس کی خاتون ترجمان ٹووی ہاگ نے بتایا ہے کہ تازہ واقعے میں ایک پولیس اہلکار زخمی اور پانچ کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اسٹاک ہوم کے جنوبی حصے کے علاقے ہگساترا کے ایک رہائشی سیلسوک سیکن نے میڈیا کو بتایا کہ چالیس سے پچاس کے قریب نوجوانوں کی ایک ٹولی کو اس نے پولیس پر پتھراؤ کرتے دیکھا اور پولیس کو قریب آتا دیکھ کر وہ سب قریبی گلیوں میں فرار ہو گئے۔ سیکن کے مطابق ان نوجوانوں نے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے توڑنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ عینی شاہد کے مطابق ان کی عمریں بیس اور پچیس برس کے درمیان دکھائی دیتی تھیں۔
سویڈش دارالحکومت میں شروع ہونے والے ان مظاہروں کی وجہ رواں مہینے کے اوائل میں پولیس کے ہاتھوں ایک 69 برس کے شخص کی ہلاکت خیال کی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والا شخص ایک بڑا چھرا تھامے ہوئے تھا۔ مظاہرین نے اس کی ہلاکت کو پولیس کے جبر سے تعبیر کرتے ہوئے مظاہرے شروع کر دیے۔ پہلے یہ چھوٹی سطح پر تھے جو اب پھیل کر شدت اختیار کر گئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں سویڈن کے سماجی نظام کو قابل ستائش خیال کیا جاتا ہے لیکن یہ نظام بے روزگار نوجوانوں کے مشتعل ہوتے جذبات کو ٹھنڈا کرنے سے قاصر دکھائی دیتا ہے۔ ایسا بھی خیال کیا گیا ہے کہ مسلسل مظاہروں نے سویڈن کے مہربان ملک ہونے کے تاثر کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ یورپ کے سنگین مالی بحران کے دوران بھی سویڈن کی اقتصادیات بہتر رہی ہے لیکن اس کے نوجوان پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔ میگا فونن نامی ایک سماجی تنظیم کے سینیئر اہلکار رامی الخامیسی کا کہنا ہے کہ اسٹاک ہوم کے نواحی علاقے سماجی اور اقتصادی طور پر منقسم ہو نے کی وجہ سے بےچینی کا شکار ہیں۔ بعض اخبارات نے بھی نوجوانوں کی بےچینی کی وجہ بےروزگاری کو قرار دیا ہے۔
(ah/ng(Reuters