سوچی، پوٹن کے لیے تحسین سے زیادہ تنقید
6 فروری 2014چند سال پہلے مشہور امریکی گلوکارہ اور اداکارہ باربرا سٹرائیزنڈ نے کیلیفورنیا میں اپنے گھر کی فضا سے لی گئی ایک تصویر کی اشاعت رکوانے کے لیے ایک فوٹوگرافر کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا تھا۔ ہوا لیکن یہ کہ اُلٹا اسی مقدمے کی وجہ سے اُن کے گھر کی یہ تصویر ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ کچھ اسی قسم کے حالات کا سامنا آج کل روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو بھی ہے۔
جب تقریباً دَس سال پہلے پوٹن نے 2014ء کے سرمائی اولمپیائی کھیلوں کے سوچی میں انعقاد کے لیے کوششیں کی تھیں تو اُن کے سامنے ایک واضح ہدف تھا۔ وہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ سوویت یونین ٹوٹنے کے تقریباً بیس سال بعد کیسے اُن کی قیادت میں ایک نئے، جدید اور ترقی یافتہ روس نے جنم لیا ہے۔ منصوبہ بندی کے مراحل کے دوران ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اقتصادی ڈھانچے اور کھیلوں کے مراکز کی تعمیر پر اربوں کے حساب سے پیسہ لگایا جائے گا۔ پوٹن بلا جھجک یہ پیسہ خرچ کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ باقی دنیا کے سامنے ایک مضبوط اور جدید روس کی تصویر پیش کرنا چاہتے تھے۔
پوٹن کی تمام تر توقعات کے برعکس پوری دنیا سوچی اولمپکس کو ہدفِ تنقید بنا رہی ہے۔ جیسے جیسے ان سرمائی کھیلوں کے آغاز کا وقت قریب آ رہا ہے، ویسے ویسے نئے روس کے تاریک پہلو ذرائع ابلاغ کی زیادہ سے زیادہ توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء دنیا بھر میں کئی ملین کے حساب سے اخباری مضامین، ریڈیو پروگراموں، آن لائن تبصروں یا پھر ٹی وی پروگراموں میں سوچی اولمپکس کی تیاریوں کے حوالے سے آج کے روس کو درپیش سنگین مسائل کا چرچا ہو رہا ہے۔ ان مسائل میں بدعنوانی، سرکاری افسران کے متکبرانہ رویوں، سرکاری اداروں کی من مانی کارروائیوں، انسانی حقوق کی نازک صورتِ حال، ماحول کی تباہی، سنسر کی زَد میں آئے ہوئے ذرائع ابلاغ، ہم جنسیت مخالف قوانین، تارک وطن مزدوروں کے ساتھ امتیازی سلوک اور شمالی قفقاذ کے نسلی تنازعات سے لے کر کھیلوں کے انعقاد کے نامکمل مراکز تک بہت کچھ شامل ہے۔
اس طرح کی رپورٹیں یقیناً پہلے بھی آتی رہی ہیں تاہم سوچی کے سرمائی اولمکپس کی وجہ سے ان کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ان رپورٹوں کی وجہ سے اُن لوگوں کو بھی، جو عام طور پر سیاسی حالات و واقعات میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے، یہ پتہ چل رہا ہے کہ آج کے روس کی اصل حقیقت کیا ہے۔ ان رپورٹوں کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگوں کے ذہنوں میں آج کے روس کی جو تصویر بن رہی ہے، وہ ان کھیلوں کے ختم ہو جانے کے بعد بھی نقش رہے گی، اس بات سے قطع نظر کہ یہ کھیل کن حالات میں منعقد ہوتے ہیں اور ان میں کون کون سے کھلاڑی اپنے سر پر فتح کا تاج سجاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اس طرح کے بڑے منصوبوں میں خطرے کا پہلو ہمیشہ رہتا ہے۔ خود جرمن دارالحکومت برلن میں ایک نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تعمیر کا منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ بہت سے روسیوں پر کی جانے والی تنقید بے جا بھی ہے، جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیسے اُن کے ملک کو بین الاقوامی سطح پر طنز اور تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سوچی اولمکپس کے منصوبوں پر تمام تر تنقید سے ہَٹ کر دیکھا جائے تو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد روس میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں اور وہاں اقتصادیات اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ایک جدت دیکھنے میں آ رہی ہے۔