سوچی اولمپکس: تنقید کم ہوتی جا رہی ہے
17 فروری 2014سوچی اولمپکس میں جرمنی کی اب تک کی کارکردگی انتہائی متاثر کن رہی ہے۔ اس دوران جرمن وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے بھی سوچی کا دورہ کیا۔ چونکہ کھلیوں کے فروغ کی ذمہ داری بھی جرمن وزارت داخلہ ہی کے پاس ہے، اس لیے دے میزیئر کو لازمی طور پر سوچی کا دورہ کرنا تھا۔ اس موقع پر وزیر داخلہ نے کہا کہ وہ جرمن کھلاڑیوں کے دستے کی کارکردگی سے بالکل مطئمن ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ روسی حکام کی جانب سے کیے جانے والے انتظامات متاثر کن ہیں اور انہیں کوئی بھی ایسی چیز دکھائی نہیں دی، جس کے باعث وہ تنقید کر سکیں۔ ان کے بقول جب کھلاڑی خوش ہیں، تو جرمن وزارت بھی خوش ہے۔ جرمن ایتھلیٹ جان یار نے بھی اس کی تصدیق کی، ’’اولمپک ولیج بہت شاندار ہے۔ کھانے پینے کے انتظامات میں بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اور یہ جگہ بھی دور نہیں ہے۔‘‘
جرمن وزیر داخلہ تھوماس دے میزیئر نے سوچی کے دورے کے دوران کہا کہ لندن اور وینکوور میں مقابلوں کے دوران بہت زیادہ جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ تاہم انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سوچی میں اس طرح کی فضا ابھی تک قائم نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ بہت سے مقابلوں میں شائقین کی تعداد اب تک انتہائی محدود رہی ہے۔ اس بارے میں ایک مقامی مداح نے کہا کہ روسی باشندے گراؤنڈ میں اتنی دیر سے پہنچتے ہیں کہ اکثر مقابلہ یا تو ختم ہو چکا ہوتا ہے یا پھر اپنے آخری مراحل میں ہوتا ہے۔
سرمائی اولمپکس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے کھیل ہیں۔ اسی لیےانہوں نے مقابلے شروع ہونے سے قبل ہی چالیس سے پچاس ارب ڈالر اس مقصد کے لیے مختص کر دیے تھے۔ وہ بطور میزبان ان کھیلوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس دوران وہ تنقید بھی سنا نہیں چاہتے۔ ’’ کیا آپ سیاست کو کھیلوں سے الگ کر سکتے ہیں؟ ایسا ممکن نہیں ہے‘‘۔
متعدد حلقوں کا خیال ہے کہ سوچی میں جوش و خروش کی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شائقین کی ایک بڑی تعداد کا تعلق روس سے ہے اور روسی لوگ بہت زیادہ محب وطن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روسی کھلاڑیوں کو تو دل کھول کر داد دیتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے ایتھلیٹس میں ان کوکوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک مثال اسکیٹنگ کے ایک مقابلے کی ہے۔ اس مقابلے میں روسی ایتھلیٹ ژیوگنی پلوشینکو کو شرکت کرنا تھی تاہم طبیعت کی خرابی کی وجہ سے انہوں نے اس مقابلے میں حصہ نہ لیا۔ جیسے ہی شائقین کو یہ بات معلوم ہوئی، ان کی ایک بڑی تعداد وہاں سے اٹھ کر چلی گئی اور اس کے بعد دیگر کھلاڑیوں کو داد دینے کے لیے وہاں بہت کم تعداد میں لوگ بیٹھے تھے۔
کئی حلقوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ سکیورٹی کے اقدامات انتہائی سخت ہیں اور کھلاڑیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس حوالے سے جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ لندن اولمپکس میں بھی ہر وقت اور ہر جگہ سکیورٹی اہلکار موجود ہوتے تھے۔ ایک اور جرمن کھلاڑی ایرک لیزر نے کہا، ’’بنیادی ڈھانچہ بالکل مناسب ہے اور ابھی تک مقابلے بہت اچھے انداز میں جاری ہیں‘‘۔
ان کھیلوں کی ابھی تک کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ کسی بھی قسم کی کوئی بھی دہشت گردانہ کارروائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ حکام کو ڈر تھا اور شدت پسندوں نے بھی ان کھیلوں کو ناکام بنانے کے لیے حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی۔ اولمپکس شروع ہونے سے قبل قفقاذ کا مسئلہ یکدم مرکزی اہمیت اختیار کر گیا تھا تاہم کھیل شروع ہونے کے بعد یہ پس منظر میں چلا گیا ہے۔ حکام کو امید ہے کہ سوچی میں اولمپک مشعل کے بجھنے تک اور اس کے بعد بھی سلامتی کی صورتحال برقرار رہے گی۔