سوئٹزرلینڈ میں جانوروں پر طبی تجربات پر پابندی: ریفرنڈم آج
13 فروری 2022سوئٹزرلینڈ دواسازی کی عالمی صنعت کا ایک بڑا مرکز ہے۔ وہاں جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی مہم اتنی مضبوط ثابت ہوئی ہے کہ اب انہوں نے اس بارے میں ایک قومی ریفرنڈم کے لیے درکار کافی حمایت حاصل کر لی ہے کہ آیا اس ملک میں جانوروں پر طبی تجربات کو ممنوع قرار دے دیا جانا چاہیے۔
یورپ کی چند حسین ترین وادیوں والا اور قدرتی حسن کا شاہکار سمجھا جانے والا ملک سوئٹزرلینڈ کئی اعتبار سے بہت منفرد ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اس ملک میں قدرتی حسن کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ یہ ملک زراعت اور طبی صنعت میں بھی بہت ترقی یافتہ ہے۔ تاہم دنیا کے دیگر خطوں اور ممالک کی طرح ماحولیاتی تبدیلیاں اس کے قدرتی حسن کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں تحفظ ماحول اور جانوروں کے تحفظ کی کئی مہمیں جاری ہیں، جو عوامی اور حکومتی سطح پر بہتر شعور و آگہی کے لیے سرگرم ہیں۔
جانوروں پر طبی تجربات
سوئٹزرلینڈ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2020ء میں اس ملک میں صرف لیبارٹری تجربات کے دوران پانچ لاکھ پانچ ہزار جانور ہلاک ہوئے۔ ان میں چار لاکھ چوہے، تقریباﹰ چار لاکھ چھ ہزار کتے، ڈیڑھ ہزار بلیاں اور سولہ سو گھوڑے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ بندروں، سؤروں، مچھلیوں اور پرندوں جیسے جانور ایسے حیوانات ہیں، جو یا تو طبی تجربات کے دوران ہی یا پھر بعد میں مر جاتے ہیں۔
فرانس میں سرکسوں میں جنگلی جانوروں کے استعمال پر پابندی
شمال مشرقی سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ریناٹو ورنڈلی نے سوئٹزرلینڈ کے براہ راست جمہوریت کے نظام کے تحت جانوروں پر طبی تجربات کے خلاف مہم شروع کی۔ وہ کہتے ہیں، ''جانوروں پر تجربات کرنا غیر ضروری اور ظالمانہ عمل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اس عمل کے بغیر بھی ادویات تیار کر سکتے ہیں۔‘‘
ریفرنڈم کا نتیجہ حتمی ہو گا
جانوروں کو طبی تجربات کے لیے استعمال کرنے پر پابندی کے فیصلے کی عوامی اکثریتی حمایت کی امید کم ہے اور یہ بات دوا سازی کے ملکی شعبے کے لیے راحت کا باعث ہے، جس نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح دوا ساز کمپنیوں اور محققین کو دوسرے ممالک میں منتقل ہونا پڑ جائے گا۔
ڈاکٹر ریناٹو ورنڈلی کہتے ہیں، ''ہمیں اپنے خود غرضانہ مقاصد کے لیے جانوروں کا استحصال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے جانوروں پر کیے جانے والے چند تجربات کے طریقوں، جیسے کہ 'بائیوچپس‘، بہت چھوٹے سے چپس جو بہت بڑی تعداد میں بائیو کیمیکل رد عمل کو جگہ دیتے ہیں، کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ کمپیوٹر سمیولیشن یا انسانوں کی مائیکرو ڈوزنگ سے بھی بہت مؤثر طبی تجربات کیے جا سکتے ہیں۔
نیا جرمن قانون: پالتو کتوں کو دن میں دو بار ٹہلانے لے جانا لازمی
دوا سازی کے شعبے کا لابی گروپ
دوا ساز کمپنیوں کے لابی گروپ انٹر فارما کا کہنا ہے کہ اس شعبے سے Roche اور Novartis جیسی کمپنیاں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ شعبہ سوئس معیشت کے نو فیصد حصے کا ذمے دار ہے اور سوئس برآمدات کا تقریباﹰ نصف حصہ پیدا کرتا ہے۔ انٹر فارما لابی گروپ جانوروں کے تحفظ سے متعلق اس مہم کی صنعتی شعبے کی طرف سے مخالفت کی قیادت کر رہا ہے۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اگر عوامی فیصلہ پابندی کے حق میں ہوا، تو یہ تباہ کن ثابت ہو گا۔
انٹر فارما کے سربراہ رینے بوہولسر نے کہا، ''ادویات پر تحقیق، ہسپتالوں میں طبی مطالعے اور یونیورسٹیوں میں ریسرچ کچھ بھی ممکن نہیں رہے گا۔‘‘ اس لابی گروپ سے وابستہ اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جانوروں پر طبی تجربات پر پابندی دوا سازی کی راہ میں رکاوٹ ہو گی اور فارما انڈسٹری کا خاتمہ ہو جائے گا۔ سوئٹزرلینڈ میں قائم ایک بہت بڑی بائیو فارماسیوٹیکل کمپنی Idorsia کے چیف ایگزیکٹیو ژاں پال کلوسل نے روئٹرز کو بتایا، ''ہم نے کورونا وائرس کی وبا کے دور میں دیکھا کہ نئی ویکسینز، نئی ادویات کی تیاری کتنی اہم ہے اور ان سب کے تجربات بھی تو جانوروں پر ہی کیے گئے تھے۔‘‘
جنگ زدہ علاقوں سے جانوروں کو محفوظ کرنے والا ڈاکٹر
سائنس دانوں کا موقف
زیورخ یونیورسٹی کے شعبہ طبی تجربات اور ٹیومر امیونالوجی کی ایک ماہر، پروفیسر ڈاکٹر ماریز فان ڈین بورک چوہوں میں ٹیومر کی پیوندکاری کے تجربات کرتی ہیں اور یہ پتا چلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ کینسر سے لڑنے کے لیے مدافعتی نظام کو مضبوط کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''ہم کسی ٹیومر کے اندر کے عمل کے بارے میں 10 فیصد علم بھی نہیں رکھتے۔ اس کے لیے کمپیوٹر ماڈل یا سیل کلچر کا استعمال کرنا اور پھر کینسر کی پیچیدہ بیالوجی کو سمجھنے کی کوشش کرنا ناممکن ہوتا ہے۔‘‘
سائنسدانوں کو کسی جانور پر طبی تجربہ شروع کرنے سے پہلے اس امر کو لازمی ثابت کرنا چاہیے کہ اس تجربے کا کوئی متبادل نہیں اور وہ واقعی اہم تحقیقی تجربہ ہے۔ پروفیسر فان ڈین بورک کے بقول، ''ہم سال میں 750 چوہوں پر تجربات کرتے ہیں۔ یہ سب آخر میں مر جاتے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ اس طرح کے مخصوص تجربات نہ کیے گئے، تو طبی سائنس مزید ترقی نہیں کر پائے گی اور ہم ایسے علاج دریافت نہیں کر پائیں گے جن سے انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔‘‘
ک م / م م (روئٹرز)