سعودی گرلز اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی کا خاتمہ زیر غور
10 اپریل 2014مشاورتی کونسل کی اس سفارش سے قبل ملکی سیاست کے انتہائی روایت پسند حلقوں کی طرف سے حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر اس پابندی کے اٹھائے جانے کی بڑی شدت سے مخالفت کی گئی۔ نو اپریل کو جدہ میں ہونے والے سعودی شوریٰ کونسل کے ایک اجلاس میں طویل عرصے سے جاری اس پابندی کے خاتمے کی سفارش کر تو دی گئی لیکن ایسا بہت گرما گرم بحث کے بعد ہوا۔
سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق گزشتہ برس ملک میں نجی انتظام میں کام کرنے والے لڑکیوں کے اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی ختم کر دی گئی تھی اور اب شوریٰ کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ ممانعت سرے سے ہی ختم کر دی جانا چاہیے۔
شوریٰ کونسل سعودی عرب کا ایک ایسا مشاورتی ادارہ ہے، جس کے ارکان کو عوام منتخب نہیں کرتے بلکہ حکمران نامزد کرتے ہیں۔ اس 150 رکنی کونسل میں مرد ارکان کو غالب اکثریت حاصل ہے۔ یہ کونسل ملکی وزارت تعلیم کو اپنی سفارشات پیش تو کر سکتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔
اس عرب ریاست میں ہر طرح کی تعلیم کی خاطر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے۔ وہاں طلباء اور طالبات کے لیے مخلوط تعلیم کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے۔ سعودی معاشرہ ایک ایسا انتہائی قدامت پسند معاشرہ ہے، جہاں خواتین کو گھروں سے نکلتے ہوئے خود کو سر سے پاؤں تک برقعے سے ڈھانپنا پڑتا ہے۔ وہاں لڑکیوں کو صرف انہی کے لیے قائم سرکاری اسکولوں میں کھیلوں کی اجازت دینا بھی ابھی تک ایک بہت حساس اور متنازعہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔
سرکاری گرلز اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی برقرار رکھنے کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اجازت اس لیے نہیں دی جانا چاہیے کہ ایسے سعودی اسکولوں میں طالبات کے لیے کھیلوں کی کوئی سہولیات موجود ہی نہیں ہیں۔ اس کے برعکس پابندی کے خاتمے کے حامی سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو اسکولوں میں کھیلوں کی اجازت دینے سے بچوں میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے فیصلہ کن مقابلے میں بھی مدد ملے گی۔
شوریٰ کونسل کے سربراہ کے ایک معاون فہد الاحمد نے بعد ازاں کہا کہ طویل بحث مباحثے کے بعد کونسل نے یہ پابندی ختم کیے جانے کی سفارش اس لیے کی کہ ایسا کرنے سے ان شرعی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو گی جو سعودی عرب میں نافذ ہیں۔ اس موقع پر فہد الاحمد نے سعودی عرب کے مرحوم مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کے ایک فتوے کا حوالہ بھی دیا کہ خواتین کو ایسے تمام کھیل کھیلنے کا حق حاصل ہے، جو اسلامی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کھیلے جا سکیں۔
سعودی خواتین کے لیے کھیلوں کے مواقع اس وقت بین الاقوامی سطح پر بڑے بھرپور انداز میں زیر بحث آئے تھے جب ریاض حکومت نے 2012ء کے لندن اولمپکس کے لیے پہلی مرتبہ خواتین کھلاڑیوں کو برطانیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے دو خواتین کو مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔ ان میں سے ایک خاتون جوڈو کی کھلاڑی تھی اور دوسری درمیانے فاصلے کی دوڑ میں حصہ لینے والی ایک ایتھلیٹ۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سعودی عرب میں کئی ملین خواتین کو کھیلوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ 2009ء اور 2010ء میں حکومت نے ملک میں خواتین کے لیے قائم نجی فٹنس سینٹر اور ہیلتھ کلب بھی بند کر دیے تھے۔