سستے فیشن کی بھاری قیمت
13 دسمبر 2012جنوبی بھارتی ریاست تامل ناڈو میں ماں باپ اپنی بیٹیوں کو تین تا چار سالہ تربیت کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی فیکٹریوں میں بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے جہیز کے لیے رقم اکٹھی کر سکیں۔ وہاں ان لڑکیوں کا ہر طرح سے استحصال کیا جاتا ہے۔
بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے کے بعد اُنہیں فی روز ساٹھ سینٹ سے بھی کم اجرت ملتی ہے۔ ان لڑکیوں کو وعدے کے مطابق بونس کے طور پر پانچ سو یورو تبھی ادا کیے جاتے ہیں، جب یہ لڑکیاں اپنی تین تا چار سالہ تربیت مکمل کر لیتی ہیں۔ تاہم تب بھی یہ رقم لڑکیوں کو نہیں بلکہ اُن کے سسرال والوں کو ادا کی جاتی ہے۔
اس سارے عرصے کے دوران ان لڑکیوں کو فیکٹریوں کے احاطے سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور تنگ سی جگہوں پر زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کی رہائش کا انتظام ہوتا ہے۔ اُنہیں اکثر مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جنسی طور پر پریشان کیا جاتا ہے۔ بچوں کی بہبود کے ادارے ٹیرے ڈے زوم کے اندازوں کے مطابق ایسی لڑکیوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار ہے، جن میں سے کئی ایک وہاں سے فرار ہونے کی بھی کوشش کرتی ہیں۔ اس سارے نظام کو مقامی زبان میں سُمَنگلی کہا جاتا ہے، جس کا مطلب بنتا ہے، ’ایسی دلہن، جو خوشحالی لاتی ہے‘۔
جرمنی کی سستا فیشن بیچنے والی کئی ایک فرمیں تامل ناڈو سے ملبوسات درآمد کرتی ہیں تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا جن فیکٹریوں سے جرمن کمپنیاں ملبوسات تیار کرواتی ہیں، اُن میں وہ فیکٹریاں بھی شامل ہیں، جہاں سُمَنگلی کے نام پر لڑکیوں سے بیگار لی جاتی ہے۔
جرمن سیاسی جماعت الائنس نائنٹی گرینز کے پارلیمانی حزب کے انسانی حقوق سے متعلق ترجمان فولکر بَیک کہتے ہیں:’’ہم اسی بات کو ہدف تنقید بناتے ہیں کہ صاف طور پر یہ نہیں بتایا جاتا کہ آیا صارف ایسی مصنوعات خرید رہا ہے، جو بیگار لینے والی فیکٹریوں میں تیار کی گئی ہیں یا اتفاقیہ طور پر اُس علاقے سے آئی ہیں، جہاں معمول کے حالات میں یہ ملبوسات تیار کیے جاتے ہیں۔‘‘ اُن کا مطالبہ ہے کہ جرمن کمپنیوں کو واضح طور پر یہ بتانے کا پابند بنایا جائے کہ اُنہوں نے اپنی مصنوعات کہاں سے درآمد کی ہیں۔
زُوڈ وِنڈ انسٹیٹیوٹ کی آنچے شنے وائس نے حال ہی میں انڈویشیا کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بارے میں ایک مطالعاتی جائزہ مرتب کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ صارفین کے ساتھ ساتھ متعلقہ کمپنیوں کے شیئر ہولڈرز بھی اپنی کمپنیوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں کہ وہ تبھی سرمایہ کاری کریں گے، جب یہ کمپنیاں انسانی حقوق کو سنجیدگی سے لیں گی۔
کئی ایک کمپنیوں نے اپنی ویب سائٹس پر اُن کمپنیوں کے نام شائع کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جن سے وہ مصنوعات خریدتی ہیں۔ تاہم آنچے شنے وائس کے مطابق عموماً یہ بڑی کمپنیوں ہی کے نام ہوتے ہیں، جو اپنا کام آگے چھوٹی کمپنیوں سے کرواتی ہیں۔
گرینز نے وفاقی جرمن حکومت سے کارروائی کرنے کے لیے کہا ہے جبکہ جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرح کی درآمدات پر پابندی عائد کرنا یورپی یونین کے دائرہء اختیار میں آتا ہے۔
C.Ruta/aa/km