سری لنکا کا انسانی حقوق کونسل کی قرارداد پر برہمی کا اظہار
23 مارچ 2012سری لنکا کی حکومت کے زیر انتظام اخبار ڈیلی ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ قرارداد کی حمایت کرنے والے ممالک ’سری لنکا کے وقار کو گھٹانے اور اسے کمزور کرنے کی مایوسانہ کوشش کر رہے ہیں اور اپنے اس مذموم مقصد کے لیے ہر حربہ آزما رہے ہیں‘۔
ملک کے ایک نجی مگر حکومت نواز اخبار نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں صدر مہندا راجہ پاکسے کی حکومت کے سخت گیر مؤقف کی تعریف کی۔ اخبار نے سری لنکا کے روایتی حلیف بھارت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس نے کونسل کی متنازعہ رائے شماری میں کولمبو سے پیٹھ موڑ لی تھی۔
اقوام متحدہ میں یہ قرارداد امریکا نے پیش کی تھی جسے مغربی ملکوں کی حمایت حاصل تھی۔ قرارداد کے حق میں 24 ملکوں نے ووٹ ڈالے جبکہ 15 نے اس کی مخالفت کی۔ آٹھ ملکوں نے رائے شماری کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
سری لنکا کے وزیر خارجہ جی ایل پیئرز نے کولمبو سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا، ’یہ انتہائی سوچا سمجھا اور من مانا طرز عمل ہے جو کسی بھی قسم کے معروضی اقدار یا معیار پر پورا نہیں اترتا۔‘
امریکا کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ اس قرارداد سے سری لنکا کی حکومت کو ایک مضبوط پیغام ملا ہے کہ ستائیس سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد دیرپا امن صرف حقیقی مصالحت اور جرائم کے مرتکب افراد کو جوابدہ ٹھہرانے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کولمبو حکومت کی تامل ٹائیگرز کو کچلنے کی لڑائی کے آخری مہینوں میں 40 ہزار کے قریب عام شہری ہلاک ہوئے۔
اگرچہ کولمبو نے اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کے فوجی عام شہریوں کی ہلاکت میں ملوث رہے ہیں تاہم اقوام متحدہ کے زیر اختیار ماہرین نے سری لنکا کی فوج پر الزام لگایا ہے کہ اس نے 2009 ء میں باغیوں کے خلاف آخری حملے میں بہت سے عام شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ سری لنکا میں 1972ء سے 2009ء تک جاری رہنے والے نسلی تنازعے میں ایک لاکھ کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عدنان اسحاق