سربرینتسا قتل عام: ہالینڈ نے ستائیس برس بعد معافی مانگ لی
12 جولائی 2022نیدرلینڈز نے پیر کے روز سربرینتسا کی نسل کشی میں ڈچ امن دستوں کے کردار کے لیے اپنی ''گہری معذرت'' کی پیشکش کی۔ 27 برس قبل بوسنیائی سرب فورسز نے ایک بہیمانہ حملے میں تقریباً 8000 بوسنیائی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔
سن 1995 کے قتل عام کے بعد پہلی بار ڈچ وزیر دفاع کاجسا اولونگرین نے ہلاکتوں کو روکنے میں ڈچ امن دستوں کی ناکامی پر زندہ بچ جانے والوں سے معافی طلب کی ہے۔
پوٹوکاری میں ایک تقریب کے دوران اولونگرین نے کہا، ''بین الاقوامی برادری سربرینتسا کے لوگوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ جس صورت حال میں یہ ناکامی سرزد ہوئی اس کی ذمہ داری ڈچ حکومت پر ہے اور اس کے لیے ہم اپنی معذرت پیش کرتے ہیں۔''
سربرینتسا میں ہوا کیا تھا؟
سن 1990 کی دہائی میں سربرینتسا کی ہلاکتیں بلقان جنگوں کا آخری مرحلہ تھا۔ بوسنیا کے سرب فورسز نے سربرینتسا علاقے میں اقوام متحدہ کی نگرانی والے زون پر قبضہ کر کے 8000 مسلمان مردوں اور لڑکوں کا قتل عام کر دیا اور ان کی لاشیں اجتماعی قبروں میں پھینک دی گئی تھیں۔
اس محفوظ زون کے تحفظ کی ذمہ داری ڈچ فورسز پر تھی، تاہم ہلاکتوں کو روکنے میں ناکامی پر اس وقت امن دستوں، ڈچ حکومت اور اقوام متحدہ کو بھی سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سابق یوگوسلاویہ کے لیے ایک بین الاقوامی فوجداری ٹرائبیونل نے اس قتل عام کو نسل کشی قرار دیا تھا۔ یہ اس جنگ کا ایک بدترین واقعہ تھا، جس میں مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
ہالینڈ کی حکومت نے امن دستوں سے بھی معافی مانگ لی
ڈچ عدالتوں نے پہلے ہی یہ فیصلہ سنا دیا تھا کہ سربرینتسا میں جو کچھ بھی ہوا، ہالینڈ بھی اس کا جزوی طور پر ذمہ دار تھا اور زندہ بچ جانے والوں کو معاوضہ بھی ادا کیا گیا تھا۔
اس موقع پر اولونگرین نے زندہ بچ جانے والوں سے کہا، ''سن 1995 کے واقعات نے گہرے انسانی مصائب کو جنم دیا جو آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ہم آپ کو اس تکلیف سے نجات نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم یہ کر سکتے ہیں کہ تاریخ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھ سکتے ہیں۔''
گزشتہ ماہ ڈچ وزیر اعظم مارک رٹ نے ان سینکڑوں ڈچ فوجیوں کے ساتھ حکومتی سلوک پر بھی معذرت پیش کی تھی جنہیں سن 1992-95 میں بوسنیائی جنگ کے دوران سربرینتسا انکلیو کے دفاع کے لیے بھیجا گیا تھا۔
انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جس یونٹ کو مشرقی بوسنیا میں امن برقرار رکھنے لیے بھیجا گیا، اس کے لیے یہ ایک ''ناممکن کام'' تھا کیونکہ ان کے پاس اس کے لیے ضروری وسائل نہیں تھے۔
نسل کشی کی برسی پر مزید متاثرین کو دفنایا گیا
گیارہ جولائی پیر کے روز سربرینتسا قتل عام کی 27 ویں برسی تھی جس کی یادگاری تقریب کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے۔ اس موقع پر جن پچاس نئے متاثرین کی شناخت کی گئی تھیں ان کی عزت و احترام کے ساتھ تدفین کی گئی۔
اس قتل عام کے جن متاثرین کی شناخت کی جاتی ہے ان کی اجتماعی تدفین ہر برس 11 جولائی کو کی جاتی ہے۔ بوسنیائی سرب جنرل راتکو ملاڈچ کی فوج نے اسی روز مسلمانوں کی ان بستیوں پر حملہ کیا تھا اور ہزاروں مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ملاڈچ کو جنگی جرائم کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، جو قید میں ہیں۔
بوسینیا ہرزیگووینا میں لاپتہ افراد سے متعلق ایک انسٹی ٹیوٹ کے مطابق حالیہ برسوں میں قتل عام کے مقام سے متاثرین کی باقیات اور ان کے ڈھانچوں کی دریافت تقریبا ناممکن ہو چکی ہیں، حالانکہ اب بھی تقریباً 1,200 افراد لا پتہ ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)