سارکوزی کی انتہائی دائیں بازو کے ووٹرز کو لبھانے کی کوشش
24 اپریل 2012صدارتی انتخابات کے پہلے دور میں سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار فرانسوا اولاند سے شکست کھانے کے بعد سارکوزی نے ملک کے انتہائی دائیں بازو کے ووٹروں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ انہوں نے ان کی آواز سن لی ہے۔ ایسا کہنے کی وجہ تھی دائیں بازو کی سخت گیر جماعت نیشنل فرنٹ کی انتخابات میں کارکردگی۔ نیشنل فرنٹ کی صدارتی امیدوار میرین لی پین نے بیس فیصد ووٹ حاصل کیے اور وہ اولاند کے اٹھائیس فیصد ووٹوں اور سارکوزی کے چھبیس فیصد ووٹوں کے بعد سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی امیدوار بن گئیں۔ اب نکولا سارکوزی کی کوشش ہے کہ کسی طرح میرن لی پین ان کی حمایت کر دیں یا پھر ان کے ووٹر اگلے دور میں ان کو ووٹ ڈالیں۔ تاہم مبصرین کے مطابق اس بات کا امکان کم ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی امیدوار سارکوزی کی حمایت کریں۔
صدارتی انتخابات کے اگلے دور کے لیے رائے دہی چھ مئی کو ہوگی۔
انتخابات میں اپنی خراب کارکردگی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر سارکوزی نے عالمی معاشی بحران کو ذمہ دار ٹہرایا۔ صدر سارکوزی کی تقریر میں روایتی دائیں بازو کی سیاست کی عکاسی نظر آئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ عوام میں پائے جانے والے ان خدشات سے آگاہ ہیں، جو ملکی سرحدوں کی حفاظت، تارکین وطن کو کنٹرول کرنے، ملازمتوں کی دوسری جگہ منتقلی اور سلامتی سے متعلق ہیں۔
پیرس میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے کہا، ’’ہم دوسرے مرحلے میں پراعتماد انداز میں داخل ہوسکتے ہیں اور اب میں تمام فرانسیسی شہریوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سیاسی وابستگی اور کسی بھی خاص مفاد سے بالاتر ہوکر حب الوطنی کے جذبے کے تحت متحد ہوجائیں اور میرا ساتھ دیں۔‘‘
نیشنل فرنٹ کی انتخابات میں شاندار کارکردگی بہت سوں کے لیے حیرت انگیز بات تھی۔ لی پین نے اپنے والد کے مقابلے میں دس فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ دو ہزار سات کے صدارتی انتخابات میں ان کے والد ژاں ماری نیشنل فرنٹ کے صدارتی امیداوار تھے۔
سوشلسٹ جماعت کے امیدوار اولاند کا کہنا ہے کہ نیشنل فرنٹ کی بہتر کارکردگی کے ذمہ دار سارکوزی ہیں جن کی پالیسیوں نے ملک میں دائیں بازو کے انتہائی نظریات میں اضافہ کیا ہے۔
دوسری جانب اولاند کو دوسرے دور کے انتخابات میں بائیں بازو کے امیدواروں کی حمایت حاصل ہو گئی ہے اور وہ فرانس کے صدر بننے کے لیے اچھی پوزیشن میں دکھائی دے رہے ہیں۔
(ss/at (AFP, AP