’زمین کے لیے‘ گھنٹے بھر کا اندھیرا
24 مارچ 2013ارتھ آور کے موقع پر مختلف ملکوں میں نمایاں مقامات تاریکی میں ڈُوب گئے۔ منتظمین کو توقع تھی کہ لینڈ مارکس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں لاکھوں افراد بھی ایک گھنٹے تک روشنیاں بند رکھیں گے۔ اس حوالے سے شہریوں اور تاجروں کو لائٹس بند رکھنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔ یہ سرگرمی اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ لوگ ’زمین‘ کی حفاظت کے لیے سنجیدہ ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ آسٹریلیا کے سربراہ ڈیرموٹ او گورمان کا اپنی اس تنظیم کی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں کہنا تھا: ’’اَرتھ آور بالکل یہاں آسٹریلیا میں، ایک شہر میں، ایک خیال کے ساتھ شروع ہوا تھا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’’اب پوری دنیا اس مقصد کا حصہ بن چکی ہے۔ اَرتھ آور لاکھوں لوگوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ بین الثقافتی اور بین الاقوامی سطح پر رابطے میں آئیں، یہ دکھائیں کہ ہم اپنے ماحول کی پروا کرتے ہیں اور اپنے سیارے کے لیے بامعنی کام کرنے میں سنجیدہ ہیں۔‘‘
اس سرگرمی کا آغاز ہفتے کو آسٹریلیا کے شہر سڈنی سے ہوا تھا۔ وہاں مقامی وقت کے مطابق شب ساڑھے آٹھ بجے (عالمی وقت کے مطابق صبح ساڑھے نو بجے) شہر کی اسکائی لائن پر اندھیرا چھا گیا۔ سڈنی اوپرا ہاؤس پر قابلِ تجدید توانائی کی علامت کے طور پر سبز روشنی پھیل گئی تھی۔ اس موقع پر وہاں موجود ایک چھوٹے سے ہجوم نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے۔
اس کے بعد جاپان میں ٹوکیو ٹاور کی روشنیاں بجھائی گئیں۔ اس موقع پر وہاں موجود لوگوں نے کھڑی ہوئی سائیکلوں کے پیڈل چلائے، جن کی مدد سے وہاں رکھا ہوا انڈے کی شکل کا ایک فن پارہ جگمگا اٹھا۔
جرمنی میں شب ساڑھے آٹھ بجے کولون شہر کے ڈوم کے نام سے مشہور کیتھیڈرل کی لائٹیں بھی بند کر دی گئی تھیں جبکہ دارالحکومت برلن میں برانڈنبرگ گیٹ بھی تاریکی میں ڈوبا رہا تھا۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آئفل ٹاور کی لائٹیں بھی بجھائی گئی، تاہم سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ایک گھنٹے کے بجائے آئفل ٹاور صرف پانچ منٹ تک اندھیرے میں رہا۔
گزشتہ برس ڈیڑھ سو سے زائد ملکوں نے ’اَرتھ آور‘ میں حصہ لیا تھا اور رواں برس یہ تعداد مزید بڑھ گئی ہے۔ اس مرتبہ فلسطینی علاقوں، تیونس، سری نام اور روانڈا نے بھی پہلی مرتبہ اس سرگرمی کا حصہ بننے کا اعلان کیا تھا۔
ng/ah (AFP, AP)