ریٹائر ہونے کا بہترین وقت تھا، تندولکر
18 نومبر 2013دو سو ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والے سچن تندولکر کا کیریئر چوبیس سالوں پر محیط رہا۔ اس دوران چالیس سالہ تندولکر نے یوں تو متعدد ریکارڈ بنائے لیکن اپنے کیریئر کے دوران بین الاقوامی میچوں میں سو سنچریاں بنانے کا ان کا ریکارڈ ایک انوکھا ہی کارنامہ ہے۔
بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے زیادہ اسکور بنانے والے چالیس سالہ تندولکر نے اپنا آخری میچ اپنے ہوم گراؤنڈ ممبئی میں کھیلا۔ دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں بھارت نے ویسٹ انڈیز کو دو صفر سے مات تو دے دی لیکن یہ کامیابی سچن تندولکر کی ریٹائرمنٹ کی وجہ سے کچھ ماند پڑ گئی۔
ویسٹ انڈیز کے خلاف کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں ہفتے کے دن جب سچن تندولکر آخری مرتبہ میدان میں اترے تو ان کے مداحوں نے اپنے نیشنل ہیرو کا پرتپاک استقبال کیا اور اس دوران بہت سے پرستار نم آنکھیں لیے کرکٹ کے بھگوان کو آخری مرتبہ ایکشن میں دیکھنے کے لیے بیتاب تھے۔
اپنے آخری میچ کے بعد اتوار کے دن سچن تندولکر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے کیریئر کے دوران وہ بہت مرتبہ زخمی ہوئے اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کہ ان تمام انجریز پر قابو پا لیا جائے۔ تندولکر کا کہنا تھا، ’’آپ اپنی زندگی میں ایک ایسے مقام پر پہنچتے ہیں، جب آپ کا جسم کہتا ہے کہ اس نے بہت دباؤ برداشت کر لیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے اب آرام کی ضرورت ہے۔‘‘
تندولکر نے اعتراف کیا کہ اب ان کے لیے ٹریننگ سیشن میں حصہ لینا مشکل ہو گیا تھا، ’’یہ بہترین وقت ہے کہ میں کرکٹ سے الگ ہو جاؤں۔‘‘ تندولکر نے ٹیسٹ میچوں میں اپنی آخری سنچری تین برس قبل بنائی تھی۔ ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں پہلے ہی ریٹائر ہو جانا چاہیے تھا۔
سچن تندولکر نے کہا، ’’کرکٹ میری زندگی رہی ہے۔ یہ کھیل میرے لیے آکسیجن کے مانند ہے۔‘‘ اگرچہ انہوں نے اپنے مستقبل کے ارادوں کے بارے میں کھل کر کوئی تذکرہ نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ نسل کی مدد کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ کسی نہ کسی سطح پر کرکٹ کے ساتھ منسلک رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد سچن تندولکر کو بھارت کے اعلیٰ ترین سول اعزاز ’بھارت رتنا‘ سے نواز گیا ہے۔ وہ بھارت کے ایسے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں ، جنہیں یہ ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تندولکر نے اس ایوارڈ کو اپنی والدہ کے نام کرتے ہوئے کہا کہ انہی کی قربانیوں کے باعث وہ اپنے ملک کے لیے کچھ کر پانے کے قابل ہوئے ہیں۔