تاریخ میں ریناساں کا مَفہوم مختلف حالات میں بدلتا رہتا ھے۔ مورخ اس کو عہدِ وسطٰی سے علیحدہ دور قرار دیتے تھے۔ جس میں اہم سماجی، معاشی اور ثقافتی تبدیلیاں آئیں۔ اٹلی کے مشہور دانشور Petrarch (1374) نے عہدِ وسطٰی کو تاریک کہا۔ جس میں سیکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ریناساں کوتبدیلی کا دور کہا جس نے یونان اور روم کی تہذیبوں سے سیکھ کر اور اُن میں اضافے کر کے یورپ کے معاشرے کو بدلا۔
اس موضوع پر Jacques Le Goff کی کتاب "Must we divide history” نے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے نزدیک Jules Michelet (d.1874) نے اپنے ایک لیکچر میں رینا ساں کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے اُس کو نئے معنی دیے۔ Michelet کے مطابق عہد وسطٰی تاریک نہیں تھا۔ اس میں اہم تبدیلیاں آ چکی تھیں جو عبوری دور سے گزر کر رینا ساں تک پہنچی اس لیے یہ تاریخ کا ایک تسلسل ہے۔ گیارویں صدی سے پندرویں صدی عیسوی تک جو اہم تبدیلیاں ہیں۔ اُن میں سے ایک لوہے کا زرعی اور صنعتی استمعال ہے۔ لوہے کے ہَل میں بیل کی جگہ گھوڑے کو استعمال کیا جس سے زمین کو بیج ڈالنے کے لیے کھودا جاتا تھا۔ لوہار اسلحہ بھی بناتا تھا جس کی وجہ سے معاشرے میں اُس کی عزت تھی۔ Jacques Le Goff کے مطابق لوگوں کی خوراک سبزی اور دلیا ہوا کرتی تھی۔ گوشت کا استعمال خاص موقعوں پر ہوتا تھا۔ کھانے کے کوئی آداب نہیں تھے۔ دعوتوں میں ایک پیالے میں گوشت اور سالن رکھ دیا جاتا تھا۔ لوگ ہاتھ ڈال کر اُس میں سے بوٹیاں نکالتے تھے اور اپنی پلیٹوں میں ڈال لیتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ عہدِ وسطٰی ہی میں کھانے کے ادب و آداب پیدا ہوئے جو رینا ساں تک چلے۔ Norbert Elias نے اپنی کتاب "Civilizing Process” میں بتایا ہے کہ کھانے کے آداب کی ابتداء اشرافیہ سے ہوئی اور پھر یہ معاشرے میں پھیلی۔ کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوئے جاتے تھے۔ پہلی مرتبہ کانٹے کا استعمال ہوا تو اس کے ذریعے بوٹیاں نکال کر پلیٹ میں رکھی جاتیں تھیں۔ ریناساں کے آتے آتے کھانے کے ادب و آداب میں نفاست آتی گئی۔
عہدِ وسطٰی میں یونیورسٹیاں چرچ کے ماتحت تھیں۔ اُن کا نصاب اور اساتذہ کا تقرر چرچ کی جانب سے ہوتا تھا۔ لاطینی زبان اشرافیہ کی تھی۔ عام لوگ اپنی مقامی زبانیں بولتے تھے۔ چمڑے پر لکھی ہوئی کتابوں کی ابتداء ہوئی۔ پیائرس اور کاغذ کا استعمال ریناساں میں ہوا۔
عہدِ وسطٰی میں تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ وینِس، جنیوا اور فلورنس اہم تجارتی مراکز تھے۔ فلورنس میں میڈیچی خاندان نے اپنے بینکوں کی شاخیں پورے یورپ میں پھیلا رکھیں تھیں۔ فلورنس عہدِ وسطٰی سے رینا ساں تک ثقافتی اَدبی اور معاشی مرکز رہا۔ ریناساں کے دور میں اس کے چرچ اور اس کے آرٹسٹوں نے اپنی تخیلیقی صلاحیتوں کا اِظہار کیا۔
عہدِ وسطٰی اور ریناساں کے دوران جو ایک اہم تبدیلی آئی وہ امریکہ کی دریافت تھی۔ یورپی ملاحوں نے دنیا کے گرد سمندری سفر کر کے گمشدہ علاقوں کو دریافت کیا۔ اس کی وجہ سے تاریخ کے مضمون میں وسعت آئی اور قومیں بری اور بحری طاقت میں تبدیلی ہونے لگیں۔
ریناساں کے آتے آتے جو اہم تبدیلیاں آئیں تو ذہنی ترقی ہوئی اُس نے چرچ کے تسلط کو گھٹا دیا۔ مذہب کی جگہ عقل اور دلیل نے لی۔ عہدِ وسطٰی کے الکلام کی جگہ فلسفے کے نئے نظریات اُبھرے۔ ہومنٹوں نے تعلیم کا نصاب بدل کر اُس میں ریاضی، موسیقی اور جغرافیہ کو دیا۔ انسان کے جسم کو سمجھنے کے لیے علمِ طِب کا فروغ ہوا۔ مردے کی چیرپھاڑ کے ذریعے انسان کے اندرونی اعضاء کا مطالعہ کیا گیا۔ کیونکہ عہدِ وسطٰی میں پلیگ اور دوسری وبائیں آئیں تھیں جن پر قابو پایا نہیں جا سکا تھا۔ اس لیے اب بیماریوں کا علاج دریافت کرنے کی کوششیں ہوئی۔ مقصد یہ تھا کہ انسان کی عمر طویل ہو، جسمانی طور پر وہ صحتمند ہو تا کہ وہ ایک بامقصد زندگی گزار سکے۔ J. Lee Goff کے نزدیک جب زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا، اور نئی فصلوں کو روشناس کرایا گیا تو لوگوں کی غذا میں بھی تبدیلی آئی۔ اس سے پہلے جو روٹی تیار کی جاتی تھی وہ رنگ میں کالی اور کھانے میں سخت ہوتی تھی۔ جسے کھانا مُشکل ہوتا تھا۔ لیکن گندم کی پیداوار اور اُس سے آٹا اور میدہ بنایا گیا۔ اس کی وجہ سے سفید روٹی کا استعمال شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ فرانس میں اس روٹی کو بگت کہتے ہیں اور میدے سے بنی سفید ڈبل روٹی کھاتے ہیں۔
لہٰذا مصنف کے نزدیک عہدِ وسطٰی کی بہت سی رسومات، عادات اور آداب تبدیل ہوتے ہوئے رینا ساں کی شکل میں اُبھرے۔ ریناساں کی اہم خصوصیات یہ ہے کہ اس نے مذہبی عقائد کی جگہ عقل کو ترجیح دی۔ جس نے معاشرے کو ارتقائی طور پر سیکولر بنایا۔
خاص طور سے ایشیائی ممالک میں ریناساں کی تحریک کو پسماندگی کے مقابلے میں اہمیت دی جاتی ہے۔ مسلمان مُلکوں میں یہ تصور عام ہے کہ اگر اسلام میں ریناساں کو لایا جائے تو ہم فرسودہ روایات سے نجات پا کر ترقی کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایک مسلمان دانشور خدا بخش جو پٹنا کی مشہور لائبریری کے بانی ہیں۔ اُںھوں نے اسلام میں ریناساں کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر یورپی طرز کی ریناساں کو اسلام میں لایا جائے تو اس کے نتیجے میں ترقی کے امکانات ہوں گے۔ بنگال میں ریناساں کے عنوان سے کئی انڈین دانشوروں نے کتابیں لکھیں ہیں جن میں خاص طور سے "Arabinda Podolar” شامل ہے۔
ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں میں سیاسی اور سماجی تبدیلیاں آئیں مگر اُن کا پسِ منظر اُن کی تاریخ اور تہذیب ہے۔ تاریخ سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ مگر یورپی طرز کی ریناساں کو ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔