روسی جنگی طیاروں نے یوکرائنی فضائی حدود کی متعدد مرتبہ خلاف ورزی کی: پینٹاگون
26 اپریل 2014یوکرائن کی فضائی حدود میں روس کے جنگی طیاروں کے داخل ہونے کی تصدیق امریکی وزارت دفاع کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان کرنل اسٹیون وارن کا کہنا ہے کہ وہ اِس کی تصدیق کرتے ہیں کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں روس کے جنگی طیارے یوکرائن کی فضائی حدود میں کئی مرتبہ داخل ہوئے۔ کرنل اسٹیون وارن نے روسی جنگی طیاروں کی اِن متنازعہ پروازوں کے بارے میں مزید تفصیل فراہم نہیں کی۔ پینٹاگون کے ترجمان نے یہ بھی نہیں بتایا کہ یوکرائن کے کن کن علاقوں میں روسی جنگی طیارے غیر قانونی طور پر داخل ہوئے۔
امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرائنی سرحدوں پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے اقدامات کرے۔ نئی صورت حال کے تناظر میں امریکی وزیر دفاع چَک ہیگل نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوئیگُو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنے کی کوشش بھی کی لیکن رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔ ہیگل روسی وزیر دفاع شوئیگُو کے ساتھ یوکرائنی بحران میں پیدا ہونے والے نئے موڑ پر بات کرنا چاہتے تھے۔ البتہ امریکی افواج کے چیرمین برائے جوائٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی روسی فوج کے سربراہ سے بات کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ روس اور امریکا کے جرنیلوں کے درمیان جو بات چیت ہوئی، اُس کی تفصیل بھی پینٹاگون کے ترجمان کرنل اسٹیون وارن نے نہیں بتائی۔
یوکرائن کی وزارت خارجہ نے جمعے کے روز بتایا کہ مشرقی حصے میں متحرک روس نواز علیحدگی پسندوں نے یورپی سکیورٹی اور کوآپریشن کی تنظیم (OSCE) کے سات مبصرین کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان مبصرین کے ہمراہ یوکرائنی فوج کے پانچ فوجی اور اُن کی بس کے ڈرائیور کو بھی روس نواز مزاحمت کاروں نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ یوکرائنی صورت حال کی نگرانی کے لیے یورپی تنظیم OSCE نے گزشتہ ماہ اپنے مبصرین روانہ کیے تھے۔
کییف میں وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ تمام مغوی بنائے جانے والے افراد کو سلاویانسک میں خفیہ ادارے کی عمارت میں رکھا گیا ہے۔ اس عمارت پر روس نواز باغیوں کا قبضہ ہے۔ یورپی تنظیم کے جو مبصرین یرغمال بنائے گئے ہیں، ان میں سےتین کا تعلق جرمنی سے ہے جبکہ بقیہ چار سویڈن، چیک جمہوریہ، پولینڈ اور ڈنمارک سے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یرغمال بنائے جانے والوں میں ایک جرمن مترجم بھی ہے۔ جرمن وزارت دفاع کی جانب سے اس حادثے کے حوالے سے کوئی ردعمل جمعے کی شام تک سامنے نہیں آیا تھا۔ مقامی علیحدگی پسندوں نے روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس کو ایک بس اور بعض افراد کو یرغمال بنانے کا بتایا ہے۔
یوکرائنی بحران کی تازہ صورت حال پر ایشیائی دورے پر گئے امریکی صدر اوباما نے یورپی لیڈران کی ایک ٹیلی فونک کانفرنس میں شرکت بھی کی۔ اس کانفرنس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون، فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ اور اطالوی وزیراعظم ماتیو رینسی شامل تھے۔ کانفرنس میں امریکی صدر اور یورپی لیڈران نے یوکرائن میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں روس کو نئی پابندیوں کے نفاذ سے متنبہ بھی کیا۔