راولپنڈی سے اٹک خورد: سفاری ٹرین کے ذریعے تاریخ اور فطرت کا سفر
ایک ایسی ٹرین، جو آپ کو ماضی کے جھروکوں میں لے جائے! راولپنڈی سے اٹک خورد تک سفاری ٹرین کا سفر تاریخی عجائب گھروں، وکٹورین دور کے ریلوے اسٹیشنز اور دریائے سندھ کے نظاروں سے بھرپور ہے۔
سفاری ٹرین کا تعارف
سن 2021 میں راولپنڈی سے اٹک خورد تک سفاری ٹرین کا آغاز کیا گیا۔ یہ ٹرین ہر اتوار تقریباً 100 کلومیٹر کا یک طرفہ سفر طے کرتی ہے۔ مسافروں کو تاریخی مقامات، تین عجائب گھروں کی سیر، لائیو میوزک، میجک شو، گھوڑوں اور اونٹ کی سواری کا لطف اٹھانے کا موقع ملتا ہے۔
گولڑہ ریلوے اسٹیشن: وکٹورین دور کی یادگار
سن 1881 میں برطانوی دور میں تعمیر ہونے والا گولڑہ ریلوے اسٹیشن سن 1913 میں جنکشن بنا۔ اس کی وکٹورین طرز کی عمارت، برگد کے گھنے درخت اور پرسکون ماحول قدیم زمانے کی یاد دلاتے ہیں۔ یہاں ریلوے کے دو عجائب گھر بھی قائم ہیں، جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔
فائر ہائیڈرنٹ: برطانوی دور کی تکنیکی یادگار
گولڑہ جنکشن پر نصب فائر ہائیڈرنٹ برطانوی دور کی ایک نادر یادگار ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخیرے سے منسلک یہ ہائیڈرنٹ آگ بجھانے کے لیے استعمال ہوتا تھا اور آج بھی تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔
قدیم ٹرین کا نمونہ: بچوں کی دلچسپی
گولڑہ جنکشن پر ڈیزل سے چلنے والی ایک قدیم ٹرین کا نمونہ رکھا گیا ہے، جو بچوں کے لیے تفریح کا باعث ہے۔ پس منظر میں لکڑی کے بورڈ پر مختلف اسٹیشنوں کے نام درج ہیں۔
تاریخی ریل گاڑی: ماضی کی جھلک
گولڑہ اسٹیشن پر موجود ایک قدیم ریل گاڑی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ اس کا پہلا ڈبہ سلیپر ہے، جہاں مسافر آرام کر سکتے تھے، جبکہ ایک ڈبہ ڈاک کے لیے مختص تھا۔ یہ گاڑی اب صرف نمائش کے لیے ہے۔
حسن ابدال: روایتی تفریح کا مرکز
حسن ابدال ریلوے اسٹیشن پر سفاری ٹرین انتظامیہ کی جانب سے خصوصی تفریحی پروگرام منعقد ہوتا ہے۔ چھوٹو پتلو کی پرفارمنس، ڈھول اور روایتی رقص بچوں اور بڑوں کو یکساں محظوظ کرتے ہیں۔
قدیم وزن کانٹا: 145 سال پرانی ٹیکنالوجی
گولڑہ جنکشن پر موجود وزن کانٹا سن 1880 کا بنا ہے اور حیرت انگیز طور پر آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ کانٹا ریلوے اسٹیشن سے بھی قدیم ہے اور روایتی طور پر گندم و چاول کا وزن کرنے کے لیے استعمال ہوتا رہا۔
اٹک خورد: کھانے اور سرائے کا بندوبست
اٹک خورد ریلوے اسٹیشن پر مسافروں کے لیے ٹینٹ میں کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پس منظر میں دریائے سندھ اور قدیم سرائے نظر آتی ہے، جبکہ بچے گھوڑ سواری سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اٹک خورد ریلوے اسٹیشن: تاریخی اہمیت
سن 1884 میں انگریزوں نے اٹک خورد ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا، جو پنجاب سے خیبرپختونخوا جانے والا آخری اسٹیشن ہے۔ یہ 36 چھوٹی بڑی آبادیوں کو سفری سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اسٹیشن کے عقب میں خستہ حال مسافر خانہ بھی موجود ہے۔
کولکتہ کا ریل آپریٹنگ سسٹم
انیسویں صدی میں کولکتہ میں تیار کردہ ریل آپریٹنگ سسٹم اٹک خورد میں آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کے مطابق یہ نظام ریل گاڑیوں کو ٹکرانے سے روکتا ہے اور ریلوے کے آپریشن کے لیے ناگزیر ہے۔
اٹک کا تاریخی پُل
سن 1880 میں 32 لاکھ روپے کی لاگت سے بنایا گیا لوہے کا یہ پل دریائے سندھ پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کو جوڑتا ہے۔ ڈیڑھ صدی بعد بھی یہ پل زیر استعمال ہے۔ اس سے قبل دریا پار کرنے کے لیے کشتیوں کا پل استعمال ہوتا تھا۔
فطری ماحول میں ٹھنڈا پانی
شدید گرمی میں پانی ٹھنڈا رکھنے کے لیے مٹی کے برتنوں کا ایک سادہ بندوبست موجود ہے۔ تین دیواروں اور ہوا کی آمدورفت کے لیے بنایا گیا یہ ڈھانچہ اب صرف تاریخی یادگار ہے۔ ادارت: امتیاز احمد