ذکری آخر ہیں کون؟ کیا یہ ایک صرف مذہبی فرقہ ہے یا اس کا کوئی سماجی و معاشی پس منظر بھی ہے؟ مستند معلومات کے فقدان کی وجہ سے ذکریوں کے بارے میں جو لٹریچر دستیاب ہے وہ قیاس آرائیوں پر زیادہ مبنی ہے۔ بہرحال ذکری فرقے کی درست عکاسی تب ہی ممکن ہے جب ہم پہلے مہدوی فرقے کے تاریخی حقائق سے واقف ہوں۔
یہ دونوں فرقوں کی تاریخ تقریباً چھ سو سال پرانی ہے۔ ذکریوں کی سب سے بڑی تعداد بلوچستان کے علاقے مکران کے ساحلی علاقوں میں آباد ہے جن کا تعلق بلوچ نسل سے ہے۔ وہیں سے چند آبادیوں نے مسقط، عمان اور عرب امارات کی جانب نقل مکانی کی اور وہیں بس گئے۔ سندھ میں کراچی کے علاقے لیاری، لسبیلہ اور ملیر میں بھی ذکری آباد ہیں جو زیادہ تر بلوچ ہیں، جبکہ شہداد پور اور سانگھڑ میں مہدویوں کی آبادیاں ہیں۔
مہدوی تحریک یا فرقے کی شروعات کب ، کہاں اور کیسے ہوئی اس کے لیے ہمیں ہندوستان کے شہر جون پور کا رخ کرنے پڑے گا۔
پندرہویں صدی میں بہلول لودھی نے جب جون پور کے فرماں روا سلطان حسین شرقی کو شکست دے کر جون پور کو سلطنت دہلی کا حصہ بنایا تو وہاں کے ایک بڑے جید عالم سید محمد جون پوری نے اس شکست کو اسلام کے زوال سے تعبیر کیا اور اسلامی قدروں کے احیا کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور مہدی آخرالزماں ہونے کا دعوی کیا، ساتھ ہی "مہدویہ فرقہ" یا مہدویہ تحریک کی بنیاد بھی ڈالی۔
ابوالکلام آزاد اپنی کتاب "تذکرہ" میں لکھتے ہیں، "سید محمد جون پوری کے شدید مخالف بھی معترف ہیں کہ وہ علوم رسمیہ کے ساتھ زہد و درویشی اور تقوے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔"
سید محمد کے اعلان پر جون پور میں سلطان حسین شرقی سمیت جوق در جوق عقیدت مندوں نے ان کے ہاتھ بیعت کرلی۔ سید محمد جون پوری کا فلسفہ حیات اشتراکیت پر مبنی تھا۔ وہ مال و دولت کی ہر خاص و عام میں یکساں تقسیم کے قائل تھے۔کچھ ہی عرصے بعد مہدوی فرقے کی تبلیغ کے لیے ہجرت کی ٹھانی اور 1480 کے عشرے میں پہلے دکن گئے اور پھر گجرات پہنچے۔
گجرات میں بھی ان کے ہزاروں معتقد جمع ہو گئے لیکن مذہبی رہنماؤں نے ہر جگہ سید محمد کی شدید مخالفت کی۔ اس کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے کوچ کیا اور سندھ کے علاقے ٹھٹہ آگئے۔ یہاں تقریباً ایک سال قیام کیا۔ یہاں بھی ان کے عقیدے پر لوگ ایمان لائے۔ سندھ سے نکل کر بلوچستان سے ہوتے ہوئے خراساں (افغانستان)کا رخ کیا۔کچھ عرصہ قندھار میں رہے جہاں ایرانی بلوچستان اور مکران کے لوگوں نے ان کے فلسفہ حیات پر بیعت کی۔ وہاں سے پھر فرح پہنچے جہاں تپ دق کے حملے سے جانبر نہ ہو سکے اور 1504 میں وفات پائی۔
مہدوی فرقہ کس طرح بلوچستان کے علاقے مکران میں ذکری فرقے میں تبدیل ہوا؟
ماضی میں جہاں بلوچستان کا بالائی حصہ قندھار کے زیرنگین تھا وہیں مکران دور دراز ہونے کی بنا پر ایک خود مختار ریاست تھی۔ تاہم زمانہ قدیم سے بلوچستان پر ایران کا اثر و رسوخ زیادہ رہا۔ ایران کا قدیم مذہب زرتشت جب عروج پر تھا تو مکران کی آبادی پارسیوں پر مشتمل تھی۔
651ء میں مسلمانوں نے ایران پر قبضہ کیا جس کے نتیجے میں اسلام پھیلا اور اس کا اثر مکران میں بھی ہوا اور یہاں کی آبادی مسلمان ہو گئی۔ پندرہویں صدی تک ایرانی سنی اسلام کے پیروکار رہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے اوائل میں ایران صفوی سلطنت کے زیر اثر آگیا۔ سو سال کے عرصے میں سنی آبادی کی اکثریت اثنا عشری شیعہ میں تبدیل ہو گئی تو مکران کی ریاست بھی شیعہ ہو گئی۔
مکران پر ہوت خاندان کے حکمران مَلک کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ اُن کی کئی پشتوں نے 1613 تک حکومت کی۔ سترہویں صدی کے آغاز میں بُلیدی خاندان کے ابو سعید بلیدی نے ہوت خاندان کے آخری حکمراں مَلک مرزا کو شکست دے کر مکران کو ایرانی تسلط سے آزادی دلائی۔ ابو سعید بلیدی کا تعلق مسقط کے شاہی خاندان سے تھا۔
متفرق ماخذوں کے مطابق ابو سعید بلیدی نےجب سید محمد جون پوری کے مہدی ہونے کے دعوے سنے تو وہ مسقط چھوڑ کر وادی ہلمند افغانستان جا پہنچے اور ملاقات کے بعد محمد مہدی کے معتقد ہو گئے اور اپنی جماعت کے ہمراہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ یہ بات مبالغہ آرائی لگتی ہے کیونکہ سید محمد کا انتقال ابوسعید بلیدی کے دور اقتدار سے تقریباً سوا سو سال پہلے ہو چکا تھا۔
غالباً بلیدی کے آباؤاجداد نے سید محمد کے ہاتھ بیعت کی ہو گی جس کی بنا پر جب ابو سعید بلیدی نے 1623 میں مکران پر اپنا تسلط قائم کیا تو "مہدوی فرقے" کو خوب فروغ دیا۔ چند برسوں میں مکران کی اکثریت نے اس فرقےکو قبول کرلیا۔ بلیدیوں نے سو سال مکران پر حکومت کی لیکن انہوں نے اس فرقے کو جبراً لاگو کرنے کی قطعی کوشش نہ کی۔ اس وقت تک مہدوی فرقے اور سُنی فرقے میں زیادہ فرق نہ تھا سوائے طریقت کے۔
تاہم جب 1723 میں گچکیوں نے بلیدی حکمرانی ختم کی اور ملا مراد گچکی نے مکران کا اقتدار سبنھالا تو اس نے مہدویہ فرقہ میں نمایاں تبدیلیاں کیں اور ذکری مذہب کے ذریعے نئی سوچ اور نئی فکر کا تصور پیش کیا۔ ملا مراد نے ذکری مذہب کو پھیلایا اور اسے ایک نیا روپ دے کر ذکر کرنے پر زور دیا۔ مقام تربت میں ایک پہاڑی اپنے نام سے منسوب کرکے اسے "کوہ مراد" کا لقب دیا، جہاں رمضان کے دوسرے عشرے سے بلوچ زائرین کی ایک بڑی تعداد 7 دن کے لیے خیموں میں آ کر جمع ہوتی ہے۔ رمضان کی 27 ویں شب یہاں بڑا اجتماع ہوتا ہے اور اگلی صبح دعا کے بعد زائرین اپنے گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ کوہ مراد پر ان 7 دن ذکر جلّی (باآواز بلند حمد وثنا)اور ذکر خفی (دل میں ذکر) کیے جاتے ہیں۔
ملا مراد نے قلعہ تربت کے سامنے ایک حوض بھی بنوایا جسے ذکری مقدس پانی مانتے ہیں۔ ذکریوں اور مہدویوں کے نظریات میں کچھ مماثلت اور کہیں کہیں اختلاف بھی پائے جاتے ہیں۔ گو کہ دونوں سید محمد جون پوری کو امام مہدی مانتے ہیں۔
عبدالغنی بلوچ اپنی کتاب "ذکری فرقہ کی تاریخ" میں لکھتے ہیں، "مہدوی سید مہدی کو ایک انسان جبکہ ذکری انہیں نور تصور کرتے ہیں۔ مکران کے ذکری یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ سید مہدی افغانستان کے علاقے فرح میں فوت ہو گئے تھے، بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ فرح سے غائب ہوئے اور مکے، مدینے، شام و ایران سے ہوتے ہوئے مکران تشریف لائے اور اپنے عقیدے کی تبلیغ کی اور بہت سے لوگوں کو اپنا پیروکار بنا لیا۔ عبدالغنی بلوچ لکھتے ہیں، "دراصل یہ تضاد کچھ ذکری مفاد پرست حکمرانوں کا کارنامہ تھا جنہوں نے مذہب کی اصل روح میں تبدیلیاں پیدا کیں۔"
ذکری فرقے میں چوگاں سماع کی ایک قسم ہے جس میں لوگ دائرے کی شکل میں کھڑے ہوتے ہیں اور ایک مرد یا عورت باآواز بلند اشعار پڑھتا/ پڑھتی ہے اور لحن کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور تمام شرکاء اس کا جواب گا کر دیتے ہیں حتی کہ ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔دائرے اور دیئک ذکری یا مہدوی فرقے کی اساس ہیں، جس میں انسانی برابری کا قائل ہونا لازمی امر ہے۔
اس کی ایک مثال سندھ کے صوفی شاہ عنایت تھے، جنہوں نے ٹھٹہ کے قریب مہدوی فرقے کے زیر اثر ایک مساوات پر مبنی سماج کی تشکیل کا ڈول ڈالا لیکن انہیں مقامی وڈیروں نے قتل کر دیا تھا۔
اسی نظریے کے تحت ذکری آبادیوں میں دائرے کا نظام نافذ کیا گیا اور ہر دائرے کا ایک صاحبِ دائرہ مقرر کیا گیا۔ معاشی طور پر خوش حال افراد اپنی آمدنی کا دس فیصد حصہ صاحب دائرہ کو دیتے ہیں، جس کو دیئک یعنی دسواں حصہ کہا جاتا ہے۔
صاحب دائرہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس رقم کو غریب آبادی میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں ان ذکری دائروں میں کوئی غریب، بیروزگار نہیں کیونکہ سب کی حاجت بلا تفریق پوری کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ذکری فرقہ صرف مذہبی نہیں بلکہ سماجی و معاشی تحریک کا بھی پیش خیمہ بنا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔