دنیا بھر میں شہر کیوں ڈوب رہے ہیں؟
15 مئی 2022میمونہ محمد شریف، اقوام متحدہ کے انسانی آبادکاری پروگرام، یو این ہابیٹاٹ میں بطور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کے بقول، "ڈوبتے شہروں سے لوگوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔"
گزشتہ پچیس برسوں میں سمندروں نے اتنی حرارتی توانائی جذب کی ہے، جتنی ساڑھے تین ایٹم بموں سے پیدا ہوتی ہے۔ پگھلتی برف، سمندری سطح میں اضافہ اور شدید موسم اب شدید تر اور عام ہوتے جا رہے ہیں۔ کچھ ہی دہائیوں میں، وہ سیلاب جو صدی میں ایک بار ساحلوں سے ٹکرایا کرتے تھے، اب ہر سال ٹکرا سکتے ہیں۔ مگر ایسا فقط ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نہیں۔
بڑے شہروں کی ڈوبتی زمینیں
جکارتہ سے لاگوس تک بڑے بڑے شہروں کا مسئلہ یہی ہے کہ زمین خود دھیرے دھیرے ڈوب رہی ہے۔ بعض دریاؤں کے ڈیلٹا پر سمندری سطح دس گنا تیزی سے بلند ہو رہی ہے۔
میمونہ محمد شریف کا مزید کہنا ہے "زمین کا ڈوبنا اور سمندری سطح میں اضافہ مجموعی طور پر ساحلی علاقوں کو ناقابل رہائش بنا سکتا ہے۔ ہم نے دھیان نہ دیا تو بعض شہر صفحہ ہستی ہی سے مٹ جائیں گے۔ "
نرم زمین پر تعمیر کردہ شہر
وجہ یہی ہے کہ دریاؤں کا رخ موڑا گیا ہے اور نرم زمین پر شہر تعمیر کیے گئے ہیں۔ زمین صرف ٹھوس نہیں ہوتی بلکہ آپ کے پیروں کے نیچے پانی اور ہوا بھی موجود ہے۔ پوری دنیا میں لوگ کنوئیں کھود کر یا دیگر طریقوں سے زیر زمین پانی کھینچتے ہیں۔ زمین میں کم پانی کا مطلب ہے ٹھوس سطح کو اوپر دبانے والے دباؤ میں کمی۔ یوں زمین کی سطح دبتی ہے اور یوں شہر ڈوبتے جاتے ہیں۔
گزشتہ ایک صدی میں بینکاک شہر ایک میٹر، شنگھائی دو میٹر، اٹلی کاپو ڈیلٹا تین میٹر سے زائد اور ٹوکیو کا مشرقی حصہ چار میٹر تک زمین میں دھنس چکا ہے۔ کیلی فورنیا کے کچھ حصوں میں یہ پیمائش ایک گھر کی بلندی جتنی تک بھی ہے۔
جکارتہ میں بڑھتے سیلاب
انڈونیشی دارالحکومت اس سے بدترین متاثر ہوا ہے۔ اس شہر کا ساحلی علاقہ اگلے تیس برسوں میں مکمل طور پر زیر آب ہو گا۔ جکارتہ میں سیلاب کا تعدّد بھی بڑھا ہے۔ سن 2019 کے آغاز پر اس شہر میں آج تک کی سب سے زیادہ ریکارڈ بارش ہوئی۔ اسی سال انڈونیشی صدر نے دنیا کے اس چوتھے سب سے بڑے ملک کے دارالحکومت کو جکارتہ سے برونیو جزیرے پر منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
انڈونیشیا میں زیر زمین پانی کی صورت حال بدترین ہے۔ بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا کی طرح جکارتہ کے دریا پلاسٹک اور فضلے سے بھرے ہوئے ہیں۔
بانڈُنگ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ماہر ارضیات، ہیری اینڈریسن، کے مطابق، "ہماری حکومت پائپوں کے ذریعے فقط ساٹھ فیصد تک پانی کی ترسیل کر سکتی ہے۔ چالیس فیصد لوگ اب بھی زیرزمین پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ "
مزید یہ کہ جکارتہ ایک دلدلی سی زمین پر واقع ہے۔ اس شہر سے تیرہ دریا گزرتے ہیں اور یہ دنیا کے گنجان آباد ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ مگر جکارتہ تنہا نہیں۔ دنیا بھر میں دریاؤں کے ڈیلٹا تیزی سے ڈوب رہے ہیں۔ اس سے ملحقہ زرعی اراضی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور چاول اور گیہوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
سیلابوں کے باعث اموات، اندازوں سے کہیں زیادہ
ہیری اینڈریسن کا ماننا ہے، "اس طرز کی تباہی ایک خاموش قاتل کی طرح ہے۔‘‘اور یہ تباہی ابھی مزید بڑھے گی۔ اہم مطالعاتی رپورٹوں کے مطابق سائنسدان اب تک سیلابوں سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد کو انڈرایسٹیمیٹ کرتے رہے ہیں۔
کلائمیٹ سینٹرل، ایک غیر منفعتی نیوز آرگنائزیشن ہے جو کہ موسمیاتی سائنس پر تجزیے اور رپورٹنگ کرتی ہے۔ اس ادارے کے سی ای او، بین سٹراؤس، کا کہنا ہے، "ہم سمجھتے تھے کہ حکومتیں اور سائنسدان ساحلی علاقوں سے متعلق بہتر طور پر جانتے ہیں۔ مگر اب پتا چلا کہ دنیا بھر میں ساحلی علاقوں سے متعلق سیٹلائیٹ ڈیٹا اور سیٹیلائیٹ سینسرز پر بھروسا کیا جاتا رہا۔ یہ سینسر چھتوں اور درختوں کی بلندی کے درمیان فرق سے قاصر تھے۔"
کلائمیٹ سینٹرل کے سائنسدانوں کے مطابق ساحلی علاقوں پر بسنے والے افراد ابتدائی اندازوں کے برعکس تین گنا زیادہ تعداد میں سیلابوں کے خطرات کا شکار ہیں۔ بعض لوگ اس ڈیلٹا کے قریب رہتے ہیں، جو تیزی سے غرق ہو رہا ہے۔اس مطالعے میں ساحلی دفاعی نظام مثلاﹰ سمندری دیواریں اور باندھے گئے بندھ خاطر میں نہیں لائے گئے۔ اس لیے ایسا نہیں کہ تمام شہروں پر قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
بین سٹراؤس کا مزید کہنا ہے، "اگر آپ اس علاقے میں بھی ہیں، جسے دیواروں اور بندھ کے ذریعے محفوظ بنایا گیا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ جس پیالے کے مقیم ہیں وہ آپ کی سوچ سے زیادہ گہرا ہے۔"
ٹوکیو اور شنگھائی، مثالیہ شہر
اس سب کا مطلب ہے مکمل تباہی۔ خصوصاﹰوہ شہری جو دیگر علاقوں میں منتقلی برداشت نہیں کر سکتے۔میمونہ محمد شریف کے مطابق "انتہائی اہم ہے کہ جکارتہ اور بینکاک جیسے شہر اس سلسلے میں ٹوکیو اور شنگھائی جیسے مثالیہ شہروں سے کیا کچھ سیکھتے ہیں۔ "
بہت سے شہر جو پچھلی صدی میں کئی میٹر تک زمین میں دھنسے اب خود کو سنبھال چکے ہیں۔
ٹوکیو اور شنگھائی نے شہریوں کو زیر زمین پانی کھینچنے کے حوالے سے حدود مقرر کر رکھی ہیں۔ یوں پانی کے منبع سے پانی نکالنے اور اسے ری چارج کرنے کا خیال رکھا گیا ہے۔
مگر جکارتہ جیسے شہر، جہاں لوگوں کے پاس پینے کے پانی کے لیے دیگر ذرائع دستیاب نہیں، لوگوں تک پائپ کے ذریعے پینے کا پانی پہنچانے سے قبل حکومت کو کئی برسوں تک دریاؤں کی صفائی میں وقت لگانا ہو گا۔
کیا اس مسلے کا حل دیوار کی تعمیر ہے؟
تاہم اس کے برعکس جکارتہ کی امید ایک بہت بڑی دیوار کی تعمیر ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مسئلے کا حل نہیں بلکہ بھاری سرمایہ کاری کے ذریعے تباہی کو فقط ٹالنے سے عبارت ہے۔
ہیری انیڈرسن کے بقول، "اگر ہم پانی مینیج کریں اس پر دس ارب ڈالر خرچ ہوں گے، اگر ہم دیوار بنائیں اس پر چالیس ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔"
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں بڑی کمی کر کے سمندری سطح میں اضافے کے رجحان کو اس صدی میں آدھے میٹر سے کم تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ مگر اتنا اضافہ پانی بھی کئی شہروں اور کروڑوں انسانوں کے لیے تباہ کن ہو گا، مگر اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ شہر خود کو مزید ایک صدی زندہ رکھ پائیں گے۔
اجیت نیرنجن ( ع ت / ع آ)