داووس میں بحران زدہ یورپ پر تنقید
27 جنوری 2012اس بحران کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں داووس میں اب تک کئی عالمی رہنماؤں کی طرف سے یورو زون پر شدید تنقید بھی کی جا چکی ہے۔ ایسے رہنماؤں میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر بھی شامل ہیں۔
داووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے اپنے افتتاحی خطاب میں جرمن چانسلر میرکل نے کہا تھا کہ یورو زون کے بحران کے حل کی کوششیں جاری ہیں، لیکن ان کے ٹھوس نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔ انگیلا میرکل کے مطابق یورو زون کے لیے ایک بہت بڑا فیصلہ مالیاتی منڈیوں پر عائد کیا جانے والا مجوزہ ٹرانزیکشن ٹیکس بھی ہو گا۔ فرانس بھی اس ٹیکس کے نفاذ کا حامی ہے۔
لیکن اس تجویز پر یورو زون کے چند ملکوں کو اعتراض بھی ہے۔ برطانیہ، جو یونین میں تو شامل ہے لیکن یورو زون میں نہیں، خاص طور پر اس کے خلاف ہے۔ اسی لیے داووس فورم سے اپنے خطاب میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس مجوزہ ٹرانزیکشن ٹیکس کو پاگل پن کا نام دیا اور کہا کہ اس حوالے سے لندن،برلن اور پیرس کا ہم خیال نہیں ہے۔
کیمرون کے بقول اس ٹیکس کے نفاذ سے یورپی یونین کی معیشت کو دو سو بلین یورو تک کا نقصان ہو گا اور ممکنہ طور پر روزگار کے پانچ لاکھ تک مواقع ختم ہو جائیں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ کیمرون نے یورو زون پر اتنی شدید تنقید کی۔ لیکن یورو زون کے ملکوں کی اکثریت برطانوی وزیر اعظم کی رائے سے اتفاق نہیں کرتی۔
دوسری طرف کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے بھی داووس فورم سے خطاب کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ یورپی یونین کے ملکوں اور امریکہ کی معیشت کو درپیش مسائل مستقبل میں شدید تر بھی ہو سکتے ہیں۔
ہارپر نے عالمی معیشت میں مسلسل عدم استحکام پر گہری تشویش ظاہر کی اور کہا کہ امریکہ اور یورپ کو اپنے مالیاتی بحران جلد از جلد حل کرنے چاہیئں۔
داووس کے اسی عالمی فورم میں جی ٹوئنٹی کے موجودہ سربراہ اور میکسیکو کے صدر فیلیپ کالدیرون نے بھی اس بات پر زور دیا کہ یورپ کو اپنے مالیاتی بحران پر اس لیے بھی بہت جلد قابو پانا چاہیے کہ اٹلی اور اسپین کو، جو یورپ کی تیسری اور چوتھی بڑی معیشتیں ہیں، قرضوں کی وجہ سے ڈوب جانے سے بچایا جا سکے۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امتیاز احمد