خیبر پختونخوا میں فوج کے ڈرون حملے، 11 افراد ہلاک
29 مارچ 2025پاکستان کے ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ افغان سرحد سے متصل خیبر پختونخوا کے ایک علاقے میں جمعہ کی رات تین ڈرون حملے کیے گئے، جن کا ہدف ’’پاکستانی طالبان کے ٹھکانے‘‘ تھے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’آج صبح معلوم ہوا کہ مرنے والوں میں دو خواتین اور تین بچے بھی شامل ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستان کی پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس علاقے میں سات فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پاکستانی طالبان کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔
مقامی افراد نے احتجاج کرتے ہوئے مرنے والوں کی لاشیں سڑکوں پر رکھ دی ہیں اور دعویٰ کیا کہ ’’حملوں میں مارے جانے والے معصوم شہری تھے۔‘‘
اے ایف ہی نے ایک اور پولیس اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے نقل کیا ہے، ’’یہ تحقیقات جاری ہیں کہ آیا حملے کے وقت طالبان جنگجو واقعی ان مقامات پر موجود تھے؟‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ یہ حملے شہری علاقوں میں کیے گئے یا وہاں طالبان پناہ لیے ہوئے تھے۔‘‘
بتایا گیا ہے کہ 'مسلح طالبان‘ ایک گھر میں چھپے ہوئے تھے، جہاں سے انہوں نے فوجی قافلے پر اچانک حملہ کر دیا۔ فوج کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں آٹھ جنگجو ہلاک جبکہ چھ زخمی ہو گئے۔
کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کارروائی میں فوج کو جنگی ہیلی کاپٹرز کی معاونت بھی حاصل رہی۔
اے ایف پی کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حکومت کے خلاف برسرپیکار مسلح گروہوں کے حملوں میں 190 سے زائد افراد ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر فوجی شامل تھے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے مارچ کے وسط میں سکیورٹی فورسز کے خلاف 'اسپرنگ کمپین‘ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
گزشتہ سال پاکستان میں تقریباً ایک دہائی کا سب سے ہلاکت خیز سال ثابت ہوا۔ اسلام آباد میں قائم سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق اس دوران سولہ سو سے زائد افراد مارے گئے۔ ان میں سے تقریباً نصف سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ یہ تشدد زیادہ تر پاکستان کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں تک ہی محدود ہے۔
بلوچ نیشنل پارٹی کے لانگ مارچ کے دوران 'خود کش حملہ‘
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں لک پاس کے علاقے میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں کم ازکم ایک شخص زخمی ہو گیا ہے۔ پولیس نے بتایا ہے کہ حملہ آور غالبا وہاں جاری نیشنل بلوچ پارٹی (بی این پی) کے دھرنے کی طرف جانے کی کوشش میں تھا تاہم اس کوشش کو ناکام بنا دیا گیا۔
بی این پی کے رہنما اختر مینگل اور دیگر رہنما وڈھ سے کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچ خواتین اور بچوں کو ہراساں کرنا ترک کیا جائے جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو رہا کیا جائے۔
بی این پی نے الزام عائد کیا ہے کہ لانگ مارچ میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں جبکہ ڈھائی سو کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ تاہم اختر مینگل کا اصرار ہے کہ وہ کوئٹہ تک پہنچ کر ہی رہیں گے۔ متوقع طور پر لانگ مارچ کے تحت وہ اور ان کے حامی ہفتے کے دن کوئٹہ پہنچ سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال مخدوش ہوئی ہے جبکہ علیحدگی پسند عناصر اکثر پولیس اور مسلح افواج کے اہلکاروں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
خاص طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پاکستانی سکیورٹی فورسز کو براہ راست نشانہ بنانے کی کوشش تیز کر چکی ہے۔
ادارت: عاطف توقیر