’حکومت مخالف آزادی مارچ کو کوئی نہیں روک سکتا‘
8 اگست 2014عمران خان کی جانب سے اپنے مؤقف کا اعادہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے، جب بظاہر ان کی جماعت اور حکومت کے درمیان مصالحت کرانے کے لئے کوشاں جماعتیں اب تک کی پیشرفت کوحوصلہ افزاء قرار دے رہی تھیں۔
جمعے کے روز اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمران ملک کو انتشار کی طرف لے جارہے ہیں اور پنجاب حکومت کی حرکتوں کی وجہ سے فوج آسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے انہیں نظر بند کرنے کی کوشش کی تو پورا پاکستان بند ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں دھاندلی ثابت ہوئی تو دوبارہ انتخابات کے سوا کوئی راستہ نہیں اور اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو حکومت سے معافی مانگ لیں گے۔
اس سے قبل جمعے کے روز ہی حکومت اور تحریک انصاف میں مصالحت کے لئے سرگرم جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سیاست میں ڈیڈ لاک پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور حکومتی عہدیداروں سے ملاقات انہیں کوششوں کا تسلسل ہے کہ صورتحال بند گلی میں نہ جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران کان کے مطالبات وزیراعظم نواز شریف تک پہنچا دیے ہیں۔ لیاقت بلوچ نے کہا، ’’ظاہر ہے کہ مطالبات بڑے واضح ہیں۔ ووٹوں کی دوبارہ گنتی ،انتخابی اصلاحات کا معاملہ، الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا معاملہ ہے اور اس طرح جو باقی مسائل ہیں۔ اس اعتبار سے ہم مطمئین ہیں کہ پچھلے دو دنوں میں حکومت کی طرف سے بھی مسلسل رابطہ اور ہمیں آگاہ بھی رکھا گیا ہے۔‘‘
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ حکومت کا عمران خان کے خلاف طاقت کے استعمال کا کوئی ارادہ نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’بھلے سے ان کے مطالبات کی آئینی اور قانونی حثیت کوئی نہیں ہے لیکن یہ سیاسی مطالبات ہیں اور ان کے سیاسی حل پر سوچا جارہا ہے تاکہ کوئی راستہ نکالا جائے۔ ان مطالبات پر حکومت نے بڑی سنجیدگی سے سوچا ہے۔ سیاسی برادری کو بھی آن بورڈ لیا گیا ہے۔ آج بھی یہ عمل جاری ہے اور جاری رہے گا۔ تو بہتر ہے کہ عمران خان صاحب غصے کے بجائے فہم اور دانش سے کام لیں۔‘‘
دفعہ ایک سو چوالیس نافذ
دوسری جانب حکومت نے آئندہ ہفتے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔ جمعے کے روز وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں مخلتف مقامات پر کنٹینرز رکھ دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے دو ماہ کے لئے شہر میں ضابطہ فوجداری کے قانون کی دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی ہے۔ اس دفعہ کے نفاذ کے بعد شہر میں جلسے جلوسوں پر پابندی کے علاوہ پانچ یا اس سے زیادہ افراد کا اجتماع نہیں ہو سکتا۔ اسلحے کی نمائش، وال چاکنگ،ہینڈ بلز اور پمفلٹ کی تقسیم کے علاوہ آتشبازی اور اس سے متعلقہ سامان کی خرید و فروخت پر بھی پابندی ہو گی۔
دریں اثناء پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے مختلف شہروں میں پولیس نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ مختلف شہروں میں ان جماعتوں کے کارکنوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی ہیں۔