’حقیقی یورپی اسلام کا کوئی متبادل نہیں‘ ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
13 جنوری 2015پیرس حملوں کے بعد سے یورپ بھر میں اسلام اور اس کے تشدد کے ساتھ مبنیہ تعلق کے موضوع پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ڈوئچے ویلے کے تجزیہ کار لوئے مدھون کے خیال میں اس سے یورپ میں اسلام کو حقوق قومیت دینے کی کامیاب شکل دھندلا رہی ہے۔
اس بارے میں مدھون نے اپنے تبصرے میں بہت سے اہم سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ کیا اسلام بنیادی طور پر ایک پُر تشدد اور مردم بیزارانہ مذہب ہے؟ کیا جہادی اس کے مرکزی تحریری احکامات سے اپنی پُر تشدد سرگرمیوں کو حق بجانب ثابت کر سکتے ہیں؟ اس سے بھی اہم سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیا جرمنی میں مسلمانوں کے انضمام کا عمل ناکام ہوگیا ہے؟
اس کا جواب مدھون یوں دیتے ہیں، ’’یہ سوال پورے طور پر حق بجانب ہے تاہم اس بحث میں ایک اہم نقطے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ کہ مذہب اسلام اور جدید معاشروں کی کامیابیوں اور آزاد جمہوری اقدار پر قائم معاشروں کے مابین کوئی مطابقت ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں اب تک ایک بات تو ہر کسی پر واضح ہو چُکی ہے وہ یہ کہ اسلام ایک بلا نمو اور غیر متغیر ایک یونٹ کے طور پر دنیا کے کسی بھی معاشرے میں نہیں پایا جاتا۔ خود مسلمان دنیا کے کسی حصے میں بطور یک سنگی بلاک کے نہیں پائے جاتے۔
اسلام کے غلبے والے ہر ملک میں اس مذہب کی تبلیغ اور اس پر عمل مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ کٹر وہابی نظریات کے حامل ملک سعودی عرب اور شیعہ مسلک پر قائم ریاستی اسلام کے غلبے والے ملک ایران میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اقتصادی طور پر ترقی یافتہ اور مضبوط اسلامی ممالک جیسے کہ ملائیشیا اور ترکی میں قدامت پسند اسلام کی ایک عملی مرکزی شکل پائی جاتی ہے۔
لوئے مدھون کے بقول، اسلام کے بارے میں ایک خاص حقیقت یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں وہ آخر کار خود ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اسلام کی تشریح و توضیح کیسے کریں اور اس عمل میں اس سے قطع نظر کے وہ کب اور کہاں ہیں، پوری آزادی سے اسلام کی تشریح اور اس پر عمل کرنے کے اہل ہیں۔
سُنی اکثریت والی اسلامی دنیا میں اُس نوعیت کے درجہ وارانہ پیشوا کا تصور نہیں پایا جاتا جیسے کہ کیتھولک مسیحیت میں ہے۔ یعنی اسلام میں کوئی پوپ جیسی اتھارٹی نہیں پائی جاتی۔ اب پیرس کے حملے کے بعد یورپ میں یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ اس براعظم کے لیے ہمیں کس طرح کے اسلام کی ضروت ہے؟
جرمنی میں 2005 ء سے جرمن اسلام کانفرنس کا سلسلہ شروع ہوا جو ہر سال منعقد ہوتی ہے۔ اس کانفرنس کا مقصد ایک طرف تو جرمن معاشرے میں اسلام کو جگہ دینا ہے دوسری جانب جرمنی میں آباد مسلمانوں کو اس معاشرے کی آزاد اور جمہوری اقدار اپنانے اور ان کا احترام کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔