جنگی جرائم: بنگلہ دیشی ٹریبونل کے سربراہ مستعفی
12 دسمبر 2012انہوں نے یہ استعفٰی ایک بنگلہ دیشی جلا وطن رہنما کے ساتھ اپنی بات چیت کے منظر عام پر آ جانے کے بعد دیا ہے۔ خود نظام الحق نے اپنے استعفے کے لیے ذاتی وجوہ کا حوالہ دیا ہے۔ یہ ٹریبونل انسانیت کے خلاف ہونے والے اُن جرائم کے مقدمات کی سماعت کر رہا ہے، جن کا ارتکاب 1971ء میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی جنگ کے دوران کیا گیا۔
ٹریبونل کے سربراہ نظام الحق کا استعفٰی سماجی رابطے کی ویب سائٹ سکائپ پر بیلجیم میں مقیم بنگلہ دیش کے ایک جلا وطن رہنما احمد ضیاء الدین کے ساتھ مختلف مواقع پر ہونے والی اُس بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے، جس کی تفصیلات کوئی تین روز قبل ایک بنگلہ دیشی روزنامہ امر دیش میں شائع ہوئی تھیں۔
قانون و انصاف اور پارلیمانی امور کے وزیر شفیق احمد کا کہنا ہے کہ جج نظام الحق صرف ٹریبونل سے مستعفی ہوئے ہیں جبکہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر وہ اپنا کام جاری رکھیں گے۔
ڈھاکہ کی براک (BRAC) یونیورسٹی کے قانون کے ایک پروفیسر کے مطابق ’ایک جج کے مستعفی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، نظام الحق کی جگہ جو جج بھی یہ ذمہ داری سنبھالیں گے، وہ سماعت وہیں سے شروع کریں گے، جہاں پر انہوں نے چھوڑی ہے‘۔ یہ ٹریبونل ان دو ٹریبونلز میں سے ایک ہے، جو جنگی جرائم میں ملوث مقامی افراد کے خلاف مقدمات کے لیے تشکیل دیے گئے ہیں۔
وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے سال 2010ء میں جنگی جرائم کے یہ ٹریبونل قائم کیے، جو اُن مقامی افراد کا محاسبہ کریں گے، جنہوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش کی 9 ماہ کی جنگ آزادی کے دوران پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔
جماعت اسلامی، جس نے بنگہ دیش کی پاکستان سے آزادی کی مخالفت کی تھی، کے بیشتر رہنماؤں اور بنگہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے دو رہنماؤں کو جنگ کے دوران آتشزدگی، قتل، جنسی زیادتی اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تمام مشتبہ رہنما بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے رہنما شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی شیخ حسینہ واجد کے سیاسی مخالف ہیں۔
تاریخ دانوں کے خیال میں 1971ء میں پاکستان سےعلیحدگی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش کے تقریباً 30 لاکھ لوگ مارے گئے تھے جبکہ 2 لاکھ خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
(rh/aa(dpa