جنگجو دن میں سوتے اور رات کو گولہ باری کرتے ہیں
8 اگست 2019یمن میں متحارب فریقین میں حوثی ملیشیا کو متعدد حریفوں کا سامنا ہے۔ ان میں ایک ملیشیا قوات الحزام الیمنی یا انگریزی میں 'سکیورٹی بیلٹ‘ کہلاتی ہے۔ یہ عدن، ابیان، الضالع اور لحج کے علاقوں میں فعال ہے۔ اس عسکری گروپ کو خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی بھرپور حمایت حاصل ہونے کا بتایا جاتا ہے۔ خلیجی ریاست اس ملیشیا کو مالی امداد کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی فراہم کرتی ہے۔
پانچ سال گزرنے کے بعد یمنی جنگ اب تھکا دینے والے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ متحارب فریقین اپنے اپنے علاقوں میں پوزیشنیں مضبوط کیے بیٹھے ہیں۔ ایران نواز حوثی ملیشیا یمن کے شمالی علاقے میں اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے۔ امریکی اور سعودی عرب کے اتحادی جنوب پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ سے شروع ہونے والے اس تنازعے کے نتیجے میں اب تک ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں جنگی صورتحال کے باعث پیدا ہونے والے قحط کی دہلیز پر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وبائی امراض کی شدت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
کئی مقامات پر جنوبی علاقے کی ملیشیا اور حوثی باغی ایک دوسرے کی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہیں اور دن کی شدید گرمی میں یہ جنگجو اپنی خندقوں میں سوئے ہوتے ہیں اور سورج ڈھلنے کے بعد گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مقام جنوب مغربی یمنی صوبے الضالع کا نساع پہاڑ ہے۔
نساع پہاڑ کی بلندی پر حوثی باغی بیٹھے ہیں اور نشیب میں سکیورٹی بیلٹ نامی ملیشیا کے جنگجو مورچہ زن ہیں۔ اس پہاڑ کی یہ صورت حال کئی مہینوں سے ہے۔ کوئی بھی فریق پیش قدمی کرنے سے قاصر ہے لیکن جھڑپوں میں متحارب جنگجوؤں کی ہلاکتیں بدستور جاری ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ الضالع میں جنگ زدہ علاقہ ہے جہاں مختلف مقامات پر متحارب فریقین کے درمیان وقفے وقفے سے فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔ اس علاقے میں مختلف ملیشیا کے کارکن حوثی باغیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں شریک ہیں۔
الضالع صوبے کے ایک جنگی علاقے کی ایک پوزیشن پر سکیورٹی بیلٹ کے چالیس جنگجو صرف ایک ٹینک کے سہارے جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ہتھیار بھی پرانے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کئی جنگجو ننگے پاؤں لڑائی کا حصہ ہیں کیونکہ وہ پہننے کے لیے جوتے بھی نہیں رکھتے۔
یمن خانہ جنگی سے قبل عرب دنیا کا غریب ترین ملک تھا اور اب جنگی حالات میں یہ غربت اور بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ یمنی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تو یہ ایک تلخ بات لیکن جنگجوؤں کو کسی ملیشیا میں شریک ہو کر کم از کم کھانا تو میسر آ جاتا ہے۔
ع ح، ع ب، نیوز ایجنسیاں