جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل بھر میں مظاہرے
وقت اشاعت 26 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 26 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ قبول کیا جائے، سابق اسرائیلی وزیراعظم
- اسرائیل نے صحافیوں کو ہدف نہیں بنایا تھا، جرمن چانسلر
- فلسطین کو بہ طور ریاست تسلیم کرنا خارج از امکان نہیں، ڈنمارک
- ناصر ہسپتال پر اسرائیلی حملہ ’ناقابل قبول‘ ہے، یورپی یونین
- جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل بھر میں مظاہرے
-
جرمن وزیر ترقیاتی أمور کا اسرائیلی پالیسیوں سے متاثرہ مقبوضہ علاقوں کا دورہ
-
غزہ سٹی پر قبضے کا منصوبہ سزائے موت ہے، اسرائیلی مسیحی
فلسطین کو بہ طور ریاست تسلیم کرنا خارج از امکان نہیں، ڈنمارک
ڈنمارک کی وزیرِاعظم میٹے فریڈرکسن نے منگل کو کہا ہےکہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا رہا لیکن یہ اس شرط پر ہو گا کہ فلسطین ایک جمہوری ریاست ہو۔
انہوں نے کہا، ’’ہم اس کے خلاف نہیں ہیں۔ ہم اس کے حق میں ہیں اور کافی عرصے سے چاہتے ہیں لیکن یقین ہونا چاہیے کہ فلسطین ایک جمہوری ریاست ہو گی۔‘‘
اتوار کو کوپن ہیگن میں 10 ہزار سے زائد افراد نے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے احتجاجی مارچ کیا۔ فریڈرکسن نے اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ایک ’’مسئلہ‘‘ بن گئے ہیں اور ان کی حکومت ’’انتہائی حد سے بڑھ چکی ہے۔‘‘
انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین کو تسلیم اس وقت کیا جانا چاہیے، جب یہ دو ریاستی حل کو عملی طور پر فائدہ دے، ایک پائیدار اور جمہوری فلسطینی ریاست کی ضمانت دے سکے اور ساتھ ہی اسرائیل کو بھی تسلیم کیا جائے۔
ڈنمارک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ یورپی یونین کی موجودہ ششماہی صدارت کے دوران اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کرے گا اگرچہ اس کے لیے حمایت اکٹھا کرنا مشکل ہو گا۔
حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ قبول کیا جائے، سابق اسرائیلی وزیراعظم
اسرائیلی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیراعظم یائیر لاپیڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدہ قبول کرے تاکہ جنگ ختم ہو اور باقی یرغمالیوں کو رہا کرایا جا سکے۔
لاپیڈ نے کہا کہ تازہ ترین ثالثی تجویز میں وہی نکات شامل ہیں، جو پہلے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے پیش کیے تھے، جن میں60 دن کی جنگ بندی اور 10 یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ یرغمالی سرنگوں میں بھوک اور دم گھٹنے سے مر رہے ہیں لیکن حکومت کے پاس اس سے زیادہ ’’اہم کام‘‘ کرنے کو ہیں۔
ناقدین کے مطابق وزیرِاعظم نیتن یاہو سیاسی وجوہات کی بنا پر جنگ کو طول دے رہے ہیں، جبکہ ان کے دائیں بازو کے اتحادی جنگ بندی کے مخالف ہیں۔ دوسری جانب قطر کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے پر اب تک اسرائیلی جواب کا منتظر ہے۔ قطری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ہفتہ قبل حماس اس معاہدے پر متفق ہو چکی ہے، تاہم ابھی اسرائیلی ردعمل باقی ہے۔
ناصر ہسپتال پر اسرائیلی حملہ ’ناقابل قبول‘ ہے، یورپی یونین
یورپی یونین نے غزہ پٹی کے جنوب میں واقع ناصر ہسپتال پر اسرائیلی حملے کو ’’مکمل طور پر ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز کیے گئے اس حملے میں پانچ صحافیوں سمیت 20 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یورپی کمیشن کے ترجمان انور الانونی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت شہریوں اور صحافیوں کا تحفظ لازمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے شہری طویل عرصے سے شدید تکالیف برداشت کر رہے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ اس تشدد کے سلسلے کو ختم کیا جائے۔
جرمن وزیر ترقیاتی أمور کا اسرائیلی پالیسیوں سے متاثرہ مقبوضہ علاقوں کا دورہ
جرمن ترقیاتی وزیر ريم العبلی رادوفان نے منگل کے روز اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اپنے پہلے دورے کے دوران مشرقی یروشلم کے عرب اکثریتی حصے کا دورہ کیا۔ یہ علاقہ اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور رہائشی پالیسیوں سے خطرے میں ہے۔
وزیر نے سلوان محلے کا معائنہ کیا، جہاں مقامی عرب باشندوں نے بتایا کہ انہیں گھروں کی مرمت یا توسیع کے لیے شاذونادر ہی اجازت ملتی ہے۔
مقامی باشندوں کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک 33 گھروں کو مسمار کیا جا چکا ہے۔ فخری ابو دیاب نے وزیر کو اپنا تباہ شدہ خاندانی گھر دکھایا، جہاں وہ دہائیوں تک اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ مقیم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو جوابدہ نہ ٹھہرائے جانے کے باعث ان سمیت کئی خاندانوں کے گھر گرائے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تشویش صرف اپنے خاندان یا محلے تک محدود نہیں بلکہ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے مستقبل سے بھی جڑی ہے۔
اپنے تین روزہ دورے کے دوران ريم العبلی رادوفان فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں سے ملاقات کریں گی اور سات اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے لواحقین سے بھی گفتگو کریں گی۔
جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل بھر میں مظاہرے
منگل کو اسرائیل بھر میں بڑے پیمانے پر غزہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں جاری ہیں۔
اسرائیل بھر میں کئی مقامات پر غزہ جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مظاہرے کیے گئے، اس دوران تل ابیب کے قریب ایک اہم ہائی وے سمیت کئی جگہوں پر سڑکیں بلاک کی گئیں۔ تل ابیب کے شمال میں سڑکوں پر ٹائر بھی جلائے گئے۔ یہ احتجاج ’’اسرائیل متحد ہے‘‘ کے نعرے تلے یرغمالیوں اور لاپتا افراد کے خاندانوں کے فورم کی اپیل پر کیا گیا۔ منگل کی شام کو تل ابیب کے مرکزی حصے میں ’’ہوسٹیج اسکوائر‘‘ پر ایک بڑا اجتماعی مظاہرہ بھی منعقد ہو رہا ہے۔
مظاہرین کا الزام ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سیاسی وجوہات کی بنا پر جنگ کو طول دے رہے ہیں، جبکہ ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی جنگ بندی کے مخالف ہیں۔
گزشتہ ہفتے ہی لاکھوں اسرائیلی عوام نے ایک بڑے احتجاج میں یرغمالیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا تھا۔ اس وقت بھی غزہ میں 50 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے حال ہی میں مصر اور قطر کی ثالثی سے سامنے آنے والی جنگ بندی کی نئی تجویز قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تجویز امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کے سابقہ منصوبے کا نظرِ ثانی شدہ ورژن ہے، جس میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے۔ اس دوران ابتدائی طور پر 10 زندہ یرغمالیوں کو فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا جانا ہے۔
غزہ سٹی پر قبضے کا منصوبہ سزائے موت ہے، اسرائیلی مسیحی
یروشلم کے مسیحی رہنماؤں نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے اسے تباہ کن قرار دیا ہے۔
یونانی آرتھوڈوکس اور لاطینی کلیسیائی رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ غزہ سٹی سے شہریوں کا انخلا انتہائی خطرناک ہو گا کیونکہ یہاں لاکھوں شہری آباد ہیں۔
غزہ سٹی میں واقع یونانی آرتھوڈوکس چرچ آف سینٹ پورفیریئس اور کیتھولک چرچ آف ہولی فیملی جنگ کے آغاز سے ہی سینکڑوں شہریوں، بچوں، بزرگوں اور معذور افراد کے لیے پناہ گاہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
چرچ رہنماؤں کے مطابق ان میں سے کئی لوگ پچھلے مہینوں کی سختیوں کے باعث کمزور اور غذائی قلت کا شکار ہیں، جبکہ شہر چھوڑنا ان کے لیے سزائے موت کے مترادف ہو گا۔ اسی لیے پادریوں اور راہبوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ وہیں رہیں گے اور لوگوں کی دیکھ بھال جاری رکھیں گے۔
روحانی رہنماؤں نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس تشدد اور جنگ کا خاتمہ ہو اور عوام کی بھلائی کو ترجیح دی جائے۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ اس بے معنی اور تباہ کن جنگ کو روکا جائے اور لاپتا افراد اور اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔