جنگ بندی معاہدے پر حماس کا جواب، اسرائیل کے زیر غور
وقت اشاعت 19 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 19 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- سوئٹزرلینڈ پوٹن کی میزبانی کے لیے تیار ہے، سوئس وزیر خارجہ
- اسرائیل کی طرف سے یورپی یونین کی مالی امداد سے تعمیر ہونے والے اسکول کی مسماری، یورپی یونین ’سخت دل گرفتہ‘
- لکڑی کے بنے 672 ٹن وزنی تاریخی چرچ کی محفوظ مقام پر منتقلی
- جنگ بندی معاہدے پر حماس کا جواب، اسرائیل کے زیر غور
- مارچ سے اب تک یوکرین کی انرجی تنصیبات پر 2900 روسی حملے
- یوکرین کے لیے نیٹو طرز کی سکیورٹی ضمانتیں زیر بحث ہیں، رُٹے
ادارت: امتیاز احمد، کشور مصطفیٰ
سوئٹزرلینڈ پوٹن کی میزبانی کے لیے تیار ہے، سوئس وزیر خارجہ
سوئٹزرلینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کی جانب سے روسی صدر کی گرفتاری کا وارنٹ جاری ہونے کے باوجود، اگر وہ یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے آتے ہیں تو سوئٹزرلینڈ ان کی میزبانی کے لیے تیار ہو گا۔
غیر جانبدار ملک سوئٹزرلینڈ آئی سی سی کے بانی ممالک میں شامل ہے لیکن اگنازیو کاسس نے سوئس قومی براڈکاسٹر ایس آر ایف کو بتایا کہ اگر روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا دورہ امن کے مقصد کے لیے ہو تو ملک ان کا استقبال کر سکتا ہے۔
کاسس کے بقول، ’’یہ ہمارے سفارتی کردار اور اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈکوارٹرز کے طور پر بین الاقوامی جنیوا کے مقام سے متعلق ہے۔‘‘
فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی اور پوٹن کے درمیان امن مذاکرات کے لیے جنیوا کو ایک ممکنہ مقام کے طور پر پیش کیا تھا۔
آئی سی سی نے 2023 میں روس کے یوکرین پر مکمل حملے کے ایک سال بعد یہ وارنٹ جاری کیا تھا، جس میں پوٹن پر یوکرین سے سینکڑوں بچوں کو جبری طور پر منتقل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جسے جنگی جرم قرار دیا گیا ہے۔
روس جنگی جرائم کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور کریملن، جس نے آئی سی سی کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے، اس وارنٹ کو مسترد کر چکا ہے۔
آسٹریا کے چانسلر کرسچن اسٹوکر نے بھی منگل کو اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک کسی بھی ایسی پہل کی حمایت کرتا ہے جو ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف لے جائے اور یوکرین اور یورپی سلامتی کے مفادات کا تحفظ کرے۔
انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا، ’’او ایس سی ای اور کئی دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے فخریہ میزبان کے طور پر، ہم اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اسرائیل کی طرف سے یورپی یونین کی مالی امداد سے تعمیر ہونے والے اسکول کی مسماری، یورپی یونین ’سخت دل گرفتہ‘
یورپی یونین کے ایک ترجمان نے آج منگل 19 اگست کو ایک بیان میں کہا ہے کہ یورپی یونین مغربی کنارے کے شمال میں واقع گاؤں العقبہ میں زیرِ تعمیر اُس اسکول کی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مسماری پر ’’سخت دل گرفتہ‘‘ ہے، جسے یورپی یونین اور فرانس نے مالی امداد فراہم کی تھی۔
ترجمان نے مزید کہا کہ اس اسکول کا مقصد کئی فلسطینی برادریوں کے سینکڑوں طلبہ کو تعلیم فراہم کرنا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے، ’’یورپی یونین توقع کرتی ہے کہ فلسطینی عوام کی حمایت میں کی گئی اس کی سرمایہ کاری کو بین الاقوامی قانون کے مطابق اسرائیل کی جانب سے نقصان اور تباہی سے محفوظ رکھا جائے گا۔‘‘
فرانس نے بھی اس انہدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’’اس کارروائی کے لیے اسرائیلی حکام کو جوابدہ ٹھہرا رہا ہے۔‘‘
یہ واقعہ غزہ میں جاری کشیدگی کے دوران پیش آیا ہے، جہاں اسرائیلی بمباری اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
لکڑی کے بنے 672 ٹن وزنی تاریخی چرچ کی محفوظ مقام پر منتقلی
سویڈن کے شمالی حصے کے ایک ٹاؤن کیرونا میں ایک تاریخی لکڑی کا چرچ اپنے اصل مقام سے پانچ کلومیٹر دور منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس چرچ کی منتقلی کان کنی سے متاثر ہونے والے اس پورے ٹاؤن کی منتقلی کا حصہ ہے۔ زیرِ زمین لوہے کے ذخائر نکالے جانے کی وجہ سے وہاں کی زمین غیر محفوظ ہو چکی ہے۔
آج منگل 19 اگست کو ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہ نظارہ دیکھنے کے لیے جمع ہوئے۔ ٹی وی فوٹیج میں 672 ٹن کی یہ عمارت ایک خصوصی طور پر بنائے گئے پلیٹ فارم پر شہر سے گزرتے ہوئے دکھائی گئی۔
دنیا کی سب سے بڑی زیرِ زمین لوہے کی کان والے شہر کیرونا میں لینڈ سلائیڈنگ اور عمارتوں کے گرنے کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث برسوں پہلے شہر کے مرکز کو کئی کلومیٹر مشرق کی طرف منتقل کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔
1912ء میں تعمیر کیے گئے اس چرچ کو تقریباً 500 میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے منتقل کیا جا رہا ہے اور طے شدہ مقام تک چرچ کی اس منتقلی میں دو دن لگنے کی توقع ہے۔
جنگ بندی معاہدے پر حماس کا جواب، اسرائیل کے زیر غور
اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پر حماس کے ردعمل کا جائزہ لے رہا ہے۔ دو اسرائیلی عہدیداروں کے مطابق اس مجوزہ معاہدے میں 60 دن کی جنگ بندی اور غزہ میں زیرِ حراست نصف اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شامل ہے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے غزہ شہر پر ایک نئے حملے کے منصوبے کے اعلان کے بعد جنگ بندی کے لیے کوششیں بڑھا دی گئی ہیں۔ مصر اور قطر نے امریکہ کی حمایت یافتہ جنگ بندی کے منصوبے پر فریقین کے درمیان بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا ہے۔
حماس کے ایک عہدیدار کے مطابق، اس تجویز میں 200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی بھی شامل ہے جو اسرائیل کی جیلوں میں بند ہیں اور اس کے علاوہ خواتین اور نابالغ قیدیوں کی ایک غیر متعین تعداد کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اس کے بدلے میں غزہ سے 10 زندہ یرغمالیوں کو رہا اور 18 ہلاک شدہ اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات واپس کی جائیں گی۔
دو مصری سکیورٹی ذرائع نے ان تفصیلات کی تصدیق کی اور مزید بتایا کہ حماس نے سینکڑوں غزہ کے قیدیوں کی رہائی کی بھی درخواست کی ہے۔
اس تجویز میں اسرائیلی افواج کا جزوی انخلاء بھی شامل ہے، جو فی الحال غزہ کے 75 فیصد علاقے کا کنٹرول رکھتی ہیں اور غزہ میں مزید انسانی امداد کی فراہمی بھی شامل ہے، جہاں 22 لاکھ کی آبادی تیزی سے قحط کا شکار ہو رہی ہے۔
قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ 60 روزہ جنگ بندی کا معاہدہ ’’جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے کی طرف ایک راستہ‘‘ ہو گا۔
اسرائیل قبل ازیں مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف کی جانب سے پیش کردہ اس منصوبے کے خاکے پر راضی ہو گیا تھا لیکن اس کی کچھ تفصیلات پر مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔ مذاکرات کا آخری دور جولائی کے آخر میں بے نتیجہ رہا تھا۔
اسرائیل کے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبوں نے بیرون ملک اور تقریباً 10 لاکھ مقامی افراد میں تشویش پیدا کر دی ہے۔
دوسری جانب، جنگ بندی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ غزہ کے صحت سے متعلق حکام کے مطابق اسرائیلی فائرنگ، ٹینک شیلنگ اور فضائی حملوں میں منگل کو کم از کم 20 فلسطینی ہلاک ہوئے۔
مقامی طبی حکام نے بتایا کہ گولہ باری کی وجہ سے درجنوں لوگ اپنے گھروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی جانچ کر رہی ہے۔
غزہ جنگ سات اکتوبر 2023ء کو اس وقت شروع ہوئی، جب حماس کے زیرِ قیادت جنگجوؤں نے اسرائیل میں گھس کر 1200 افراد کو ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا۔ اس کے بعد سے اسرائیل کے حملوں میں 61,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ انسانی بحران کا شکار ہے اور اس کی بیشتر آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
مارچ سے اب تک یوکرین کی انرجی تنصیبات پر 2900 روسی حملے
یوکرین کی وزارت توانائی نے بتایا کہ گزشتہ شب یوکرین کے علاقے پولٹاوا میں توانائی کی تنصیبات روسی حملے کا نشانہ بنیں، جہاں بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی۔
وزارت نے کہا کہ ایک گیس ٹرانسپورٹ کی تنصیب کو درجنوں ڈرونز کے ذریعے نشانہ بنایا گیا، جس سے نقصان پہنچا۔ وزارت نے ٹیلی گرام پر بتایا، ’’روسی قابض افواج نے کروز میزائلوں اور اسٹرائیک ڈرونز کا ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے پولٹاوا کے علاقے میں توانائی کے بنیادی ڈھانچے کی تنصیبات پر ایک اور بڑا حملہ کیا، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر آگ لگ گئی۔‘‘
وزارت نے یہ واضح نہیں کیا کہ گیس کے بنیادی ڈھانچے کے علاوہ کن دیگر تنصیبات پر حملہ کیا گیا۔
روس کی خبر رساں ایجنسی انٹر فیکس نے رپورٹ کیا کہ وزارت دفاع نے ایک تیل صاف کرنے والے کارخانے پر حملہ کیا تھا، جو یوکرینی مسلح افواج کو ایندھن فراہم کر رہا تھا۔
یوکرین کی واحد آئل ریفائنری پولٹاوا کے علاقے میں موجود ہے، جس پر ڈرونز اور میزائلوں دونوں سے بار بار حملے کیے جاتے رہے ہیں۔
مقامی میڈیا اور کریمینچک کے میئر نے دھویں سے بھرے آسمان کے پس منظر میں شہر کے مختلف علاقوں کی ویڈیوز شائع کیں۔
کییف کے حکام نے یہ رپورٹ نہیں کیا ہے کہ آیا یہ آئل ریفائنری فعال ہے۔ وزارت نے منگل کو بتایا کہ روس نے جون میں دو بار یوکرین کے تیل صاف کرنے والے بنیادی ڈھانچے پر حملہ کیا۔
روس نے جنگ کے پہلے دن سے ہی یوکرین کے تیل کے ڈپو اور ایندھن کے ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر بڑے حملے کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، یوکرین کی ایندھن کی ضروریات مکمل طور پر درآمدات سے پوری ہو رہی ہیں، خاص طور پر یورپی ممالک سے۔
یوکرینی وزارت نے کہا کہ صرف مارچ 2025 سے اب تک یوکرین کی توانائی کی تنصیبات پر 2,900 بار حملہ کیا گیا ہے۔
روس نے بارہا کہا ہے کہ وہ شہری بنیادی ڈھانچے پر حملہ نہیں کرتا۔
یوکرین کے لیے نیٹو طرز کی سکیورٹی ضمانتیں زیر بحث ہیں، رُٹے
واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی اور یورپی رہنماؤں کے درمیان ملاقات کے بعد رُٹے نے امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو بتایا کہ امریکہ نے یوکرین کے لیے سکیورٹی ضمانتوں کے تصور میں شرکت کے لیے اپنی رضامندی کا اشارہ دیا ہے، جس میں آرٹیکل پانچ جیسی ضمانتوں پر تبادلہ خیال کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘‘یہاں جس چیز پر ہم بحث کر رہے ہیں، وہ نیٹو کی رکنیت نہیں ہے۔ ہم یوکرین کے لیے آرٹیکل پانچ قسم کی سکیورٹی ضمانتوں پر بات کر رہے ہیں۔‘‘
نیٹو کے سربراہ نے مزید کہا، ’’اور ان میں کیا کیا شامل ہو گا، اس پر اب مزید خاص طور پر بات چیت کی جائے گی۔‘‘
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ زمینی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے واشنگٹن میں کوئی بات نہیں ہوئی، ساتھ ہی انہوں نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کو ایک کامیابی قرار دیا۔
زیلنسکی نے نیٹو معاہدے کے آرٹیکل پانچ کی بنیاد پر مغرب سے امداد کی ضمانتیں طلب کی ہیں اور سربراہی اجلاس سے قبل کہا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے نیٹو طرز کی سکیورٹی ضمانتیں ضروری ہیں۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے معاہدے میں آرٹیکل پانچ باہمی دفاع سے متعلق شق ہے، جس کے تحت نیٹو کے کسی رکن ملک پر حملے کا دفاع تمام نیٹو ممالک کریں گے۔