جنوبی کوریا: عدالت نے صدر یون کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے
31 دسمبر 2024جنوبی کوریا کی ایک عدالت نے صدر یون سک یول کو حراست میں لینے کے لیے وارنٹ گرفتاری کی منظوری دے دی ہے۔ واضح رہے کہ صدر نے اس ماہ کے اوائل میں قلیل مدت کا مارشل لاء نافذ کیا تھا، جس کے بعد ملکی ایوان نے ان کا مواخذہ کر دیا۔
بدعنوانی سے متعلق اعلیٰ عہدے داروں کی تحقیقات کے دفتر نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا کہ سیول ویسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ نے یہ وارنٹ گرفتاری جاری کیا ہے۔
ایجنسی نے بتایا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا یون کا تین دسمبر کے دن مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم بغاوت کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔
قائم مقام جنوبی کوریائی صدر کے مواخذے کی قرارداد بھی منظور
البتہ یہ فوری طور پر واضح نہیں تھا کہ یون کے خلاف وارنٹ گرفتاری پر کب اور کیسے عمل کیا جائے گا۔
منگل کے روز ہی جنوبی کوریا میں صدر کی سکیورٹی سروس نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ گرفتاری کے وارنٹ کے تعلق سے قانون کے مطابق مناسب عمل کرے گی۔
ادھر مواخذہ شدہ صدر کے وکیل کا کہنا ہے کہ وارنٹ گرفتاری "غیر قانونی اور غلط" ہے۔
جنوبی کوریا: صدر نے مارشل لاء نافذ کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا
وکیل یون کب کیون نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو فراہم کیے گئے ایک بیان میں کہا، "گرفتاری کے وارنٹ اور تفتیشی اتھارٹی کے بغیر کسی ایجنسی کی درخواست پر جاری کیے گئے تلاشی اور ضبطی کے وارنٹ غیر قانونی اور غلط ہیں۔"
وکیل نے مزید کہا کہ یون سک یول سے تفتیش کرنے والے ادارے کے پاس "تفتیشی اختیار کا فقدان ہے۔"
مختلف ممالک میں پھیلتی فور بی تحریک کیا ہے؟
پراسیکیوٹرز نے وارنٹ گرفتاری کے لیے عدالت سے پیر کے روز درخواست کیا تھا اور منگل کے روز اسے جاری کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ملک کی آئینی تاریخ میں کسی موجودہ صدر کو زبردستی حراست میں لینے کی پہلی کوشش ہے۔
تفتیش کاروں نے وارنٹ گرفتاری کیوں ضروری سمجھا ؟
واضح رہے کہ صدر یون مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور پبلک پراسیکیوٹرز کی طرف سے پوچھ گچھ کے لیے پیش ہونے کی متعدد درخواستوں کو رد کے چکے ہیں۔ انہوں نے تحقیقات سے متعلق اپنے دفتر میں تلاشی لینے پر بھی روک لگا دی ہے۔
ادھر تفتیش کار صدر یون سے اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے اور بغاوت کو منظم کرنے جیسے الزام کے تحت ان سے پوچھ گچھ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
جنوبی کوریا: وزیر دفاع مستعفیٰ اور صدر کے مواخذے کی کوشش
واضح رہے کہ صدر نے جیسے ہی مارشل لاء کے اعلان کیا، ملک کے سیاستدانوں نے فوری طور پر اس کی مخالفت کی تھی اور قانون سازوں نے فوری طور پر یون سے اپنے حکم کو کالعدم کرنے کا مطالبہ کرنے والی قرارداد منظور کر لی تھی۔
14 دسمبر کو قانون سازوں نے صدر کے صدارتی اختیارات کو معطل کرتے ہوئے، فوجی حکمرانی نافذ کرنے کی ناکام کوشش پر صدر کے مواخذے کے حق میں بھی ووٹ کیا۔
تاہم اب یہ آئینی عدالت پر منحصر ہے کہ آیا وہ مواخذے کی تصدیق کرے اور یون کو عہدے سے ہٹا دے یا پھر ان کے اختیارات بحال کر دے۔ تاہم اس عمل میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں ناکام مارشل لاء کے بعد اب کیا ہو گا؟
مختصر سا مارشل لاء سیاسی بحران کی وجہ
مارشل لاء لگانے کی کوشش کے چند دن بعد ہی صدر یون نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے اقدامات پر قانونی اور سیاسی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش نہیں کریں گے۔
اس کے باوجود بعد میں وہ اپنے فیصلے کا دفاع کرنے لگے اور کہا کہ انہوں نے ملک کی جمہوریت کے تحفظ کے لیے یہ اقدام کیا تھا۔
اپوزیشن پارٹی کے ارکان نے سمن کی بار بار خلاف ورزی پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور شواہد کو ممکنہ طور پر تباہ کرنے کے خلاف خبردار بھی کیا ہے۔
یون کو اس سلسلے میں بغاوت کی قیادت کرنے کے ممکنہ الزامات سمیت تحقیقات کا سامنا ہے، یہ ایک جرم ہے، جس کی سزا عمر قید یا یہاں تک کہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔
جنوبی کوریا: مارشل لاء کی افراتفری اور صدر سے استعفے کا مطالبہ
ملک کا سیاسی بحران اس وقت مزید گہرا ہو گیا، جب پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے قائم مقام صدر ہان ڈک سو کو بھی آئینی عدالت کی تین خالی اسامیوں کو پر کرنے میں ہچکچاہٹ پر ان کا مواخذہ کر دیا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)