جنوبی وزیرستان میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں بم دھماکہ
14 مارچ 2025پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختوانخوا کے دارالحکومت پشاور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ بم دھماکہ آج 14 مارچ کو اس وقت ہوا، جب رمضان کے مہینے کی وجہ سے اس مسجد میں نماز جمعہ کے لیے معمول سے زیادہ تعداد میں نمازی موجود تھے۔
پاکستان: تصادم میں میجر سمیت سکیورٹی فورسز کے چار اہلکار ہلاک
پولیس نے بتایا کہ اس بم دھماکے کے نتیجے میں مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان گروپ) کے جنوبی وزیرستان میں ضلعی سربراہ اور تین دیگر افراد زخمی ہو گئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔
بم حملے کا ظاہری ہدف مذہبی سیاسی رہنما
نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ضلعی پولیس کے سربراہ آصف بہادر کے مطابق اس بم حملے کا نشانہ بظاہر جے یو آئی (ایف) کے ضلعی سربراہ عبداللہ ندیم تھے، جو شدید زخمی ہوئے اور اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس پولیس افسر کے بقول، ''تین دیگر زخمیوں میں دو کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔‘‘
حکام کے مطابق فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ یہ بم حملہ کس مسلح گروپ نے کیا اور نہ ہی اب تک کسی عسکریت پسند گروہ نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے خونریز حملے کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حملے اکثر ان علاقوں میں کیے جاتے ہیں، جو ماضی میں وفاق پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کہلاتے تھے مگر گزشتہ کئی برسوں سے ان علاقوں کو صوبے کے باقاعدہ اضلاع کے طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کیا جا چکا ہے۔
شمالی وزیرستان میں جھڑپیں، لفٹیننٹ کرنل سمیت چھ فوجی ہلاک
ماضی میں نیم خود مختار اور لاقانونیت کا شکار ان سابقہ قبائلی علاقوں میں امن عامہ اور قانون کی بالادستی آج بھی ایک مسئلہ ہے اور وہاں کئی ممنوعہ عسکریت پسند گروہ اور تنظیمیں ابھی تک فعال ہیں۔
گزشتہ ماہ دارالعلوم حقانیہ میں کیا گیا خود کش بم حملہ
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا ہی میں افغان سرحد کے قریبی علاقے میں گزشتہ ماہ جمعے کی نماز کے دوران ہی ایک ایسے بڑے اور مشہور مدرسے میں بھی ایک خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں جس میں چھ نمازی ہلاک ہو گئے تھے۔
اس بم حملے کا نشانہ دارالعلوم حقانیہ نامی وہ مدرسہ بنا تھا، جسے ماضی میں افغان طالبان کا پاکستان میں تربیتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اسی ہفتے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بھی مسلح بلوچ علیحدگی پسندوں نے ایک مسافر ریل گاڑی پر حملہ کر کے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے سینکڑوں مسافروں کو ایک دن تک یرغمال بنا کر اپنے قبضے میں رکھا تھا۔
پاک افغان سرحد پر جھڑپیں، آٹھ فوجی اور سات شدت پسند ہلاک
یہ خونریز واقعہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا تھا، جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے آپریشن کر کےزیادہ تر یرغمالیوں کو رہا کرا لیا تھا۔ اس آپریشن میں حملے میں ملوث تقریباﹰ سبھی بلوچ علیحدگی پسند، کئی سکیورٹی اہلکار اور بہت سے یرغمالی بھی مارے گئے تھے۔
پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں ٹرین حملے کے بعد ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ ملک میں مزید پھیلتی جا رہی عسکریت پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے گا۔
ساتھ ہی حکام نے یہ اعادہ بھی کیا تھا کہ پاکستان میں سرگرم عسکریت پسندوں نے ہمسایہ ملک افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔ یہ تاہم ایک ایسا الزام ہے، جس کی کابل میں طالبان حکومت کی طرف سے تردید کی جاتی ہے۔
م م/ ش ر (روئٹرز)